دہلی فسادات کیس: شرجیل امام، عمر خالد سمیت کئی ملزمان کی ضمانت پر آج دہلی ہائی کورٹ سنائے گا فیصلہ

فروری 2020 دہلی فسادات کیس میں شرجیل امام، عمر خالد اور دیگر کی ضمانت پر آج دہلی ہائی کورٹ فیصلہ سنائے گا۔ استغاثہ نے سخت مخالفت کرتے ہوئے ملزمان کو سازش کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا تھا

<div class="paragraphs"><p>سوشل میڈیا</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

دہلی ہائی کورٹ آج فروری 2020 کے دہلی فسادات کی مبینہ سازش سے جڑے غیر قانونی سرگرمیاں (انسداد) قانون (یو اے پی اے) معاملے میں اہم فیصلہ سنانے جا رہا ہے۔ یہ فیصلہ جسٹس نوین چاولہ اور جسٹس شالندر کور پر مشتمل دو رکنی بیچ سنائے گی۔ اس معاملہ میں شرجیل امام، عمر خالد، محمد سلیم خان، شفا الرحمٰن، اطہر خان، میران حیدر، عبدالخالد سیفی اور گلفشہ فاطمہ سمیت کئی ملزمان کی ضمانت کی عرضیاں زیرِ غور ہیں۔

یاد رہے کہ عدالت نے 9 جولائی کو اس معاملے میں سماعت مکمل کرتے ہوئے اپنا فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔ اب تقریباً دو ماہ بعد عدالت اپنا فیصلہ سنانے والی ہے، جس کا بے چینی سے انتظار کیا جا رہا ہے۔

استغاثہ کی جانب سے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے ملزمان کی ضمانت کی شدید مخالفت کی تھی۔ انہوں نے عدالت میں دلیل دی تھی کہ یہ معاملہ محض ایک عام فساد کا نہیں ہے بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا نتیجہ ہے، جس کا مقصد عالمی سطح پر ہندوستان کو بدنام کرنا تھا۔ مہتا نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر کوئی اپنے ملک کے خلاف سرگرمی کرتا ہے تو بہتر یہی ہے کہ وہ بری ہونے تک جیل میں ہی رہے۔ ان کے مطابق لمبی مدت کی قید ضمانت دینے کی بنیاد نہیں بن سکتی۔


پولیس نے اپنی تفتیش میں دعوی کیا تھا کہ ملزمان نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور قومی شہری رجسٹر (این آر سی) کے خلاف جاری احتجاجات کی آڑ میں فسادات کی سازش تیار کی تھی۔ پولیس نے عمر خالد، شرجیل امام اور دیگر کئی افراد کو ان فسادات کا ’ماسٹر مائنڈ‘ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف یو اے پی اے سمیت تعزیرات ہند کی متعدد دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔

واضح رہے کہ فروری 2020 میں شمال مشرقی دہلی میں بھڑکے تشدد میں 53 افراد کی جان گئی تھی اور 700 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے تھے۔ یہ فسادات کئی دنوں تک جاری رہے اور علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا۔

ملزمان کی ضمانت کی عرضیاں 2022 سے دہلی ہائی کورٹ میں زیرِ التوا ہیں۔ اس دوران مختلف بنچوں نے وقتاً فوقتاً اس پر سماعت کی لیکن کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔ اب جب کہ عدالت اپنا فیصلہ سنانے والی ہے، دونوں فریقوں میں بے پناہ دلچسپی دیکھی جا رہی ہے۔ ایک طرف استغاثہ کا ماننا ہے کہ ملزمان کے خلاف شواہد مضبوط ہیں اور انہیں رہا کرنا انصاف کے منافی ہوگا، وہیں مدعا علیہان کا موقف ہے کہ ملزمان کو سیاسی طور پر نشانہ بنایا گیا ہے اور ان کے خلاف ثبوت ناکافی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔