دہلی فساد: اطہر کے اہل خانہ اور وکیل نے جیل افسران پر لگائے سنگین الزامات

اطہر کے والد افضل خان کا الزام ہے کہ جیل میں اطہر کو مذہبی بنیاد پر مظالم کا شکار بنایا جا رہا ہے، اور جیل افسران اسے نازیبا الفاظ بھی کہتے ہیں۔

اطہر خان
اطہر خان
user

مسیح الزماں انصاری

آپ دہلی میں رہتے ہوں یا نوکری و روزگار کے لیے روزانہ دہلی آتے جاتے ہوں، تب بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کو فروری 2020 میں تقریباً ایک ہفتے تک شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فساد کی یاد نہ ہو۔ اس فساد میں 53 لوگوں کی جان چلی گئی تھی۔ پولیس نے ان فسادات کے سلسلے میں مجموعی طور پر 1825 لوگوں کو گرفتار کیا تھا۔ ان میں سے 18 لوگوں پر غیر قانونی سرگرمی (روک تھام) ایکٹ یعنی یو اے پی اے کی دفعات لگائی گئیں۔ ان میں سے 6 کو ہی اب تک ضمانت مل پائی ہے۔ بقیہ لوگ اب بھی جیل میں ہی ہیں۔ ان کے معاملے کی سماعت کی تاریخ مقرر ہونے میں ہی مہینے لگ جاتے ہیں، سماعت تو بہت دور کی بات ہے۔

25 سال کے اطہر خان انہی ایک درجن لوگوں میں ہیں۔ ان پر فساد کے سلسلے میں جو دو مقدمات درج ہیں، ان میں تو انھیں ضمانت مل چکی ہے، لیکن یو اے پی اے کے تحت درج معاملے کی ضمانت کا مسئلہ لٹکا ہوا ہے۔ اطہر کے ماما نجم الدین کا کہنا ہے کہ گزشتہ 6 مہینے سے معاملے میں کوئی سماعت ہی نہیں ہو رہی۔ کڑکڑڈوما سیشن کورٹ میں ضمانت کی سماعت کے لیے 6 اگست اور 24 اگست کے بعد آئندہ تاریخ 5 ستمبر کی ملی ہے۔


ویسے لگتا ہے کہ ترمیم شدہ شہری قانون (سی اے اے) مخالف مظاہرے میں سرگرم رہنے کی وجہ سے ہی اسے یہ سب بھگتنا پڑ رہا ہے۔ دوسری بڑی وجہ یہ لگتی ہے کہ اقلیتی طبقہ سے ہونے کے سبب بھی پولیس انتظامیہ نے اسے نشانے پر لے رکھا ہے۔ دراصل اطہر کے وکیل ارجن دیوان نے کورٹ میں درخواست دے کر الزام عائد کیا ہے کہ کورٹ سے جیل واپسی پر اطہر کے کپڑے پوری طرح اتار کر تلاشی لی جاتی ہے۔ انھوں نے اس قسم کی تلاشی کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ لیکن کورٹ کے حکم کے بعد بھی اس قسم کا فوٹیج اب تک نہیں دیا گیا ہے۔

اطہر کو دہلی پولیس نے فساد کے قریب پانچ ماہ بعد 2 جولائی 2020 کو دہلی میں اس کے گھر سے گرفتار کیا تھا۔ اطہر کے والد افضل خان کا الزام ہے کہ جیل میں اطہر کو مذہبی بنیاد پر مظالم کا شکار بنایا جا رہا ہے اور جیل افسر اسے نازیبا الفاظ بھی کہتے ہیں۔ پیشی کے لیے عدالت لائے جانے کے دوران اسے تکلیف دی جاتی ہے اور ایسا کئی بار کیا گیا ہے۔ 15 نومبر 2021 کو کڑکڑڈوما کورٹ سے واپسی میں منڈولی جیل میں تلاشی کے دوران اسے بہت زیادہ پریشان کیا گیا، جب کہ مئی 2022 میں بھی کڑکڑڈوما کورٹ میں پیشی سے واپسی پر اطہر کو تلاشی کے دوران ظلم کا شکار بنایا گیا، گالی دی گئیں اور جوتے پھاڑ دیے گئے۔ انھوں نے بتایا کہ ’’شروع میں اس پر اتنا زیادہ ظلم کیا گیا کہ اس کی آواز صاف نہیںنکل پاتی تھی اور اس کے بات کرنے سے درد ظاہر ہوتا تھا۔ اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس قسم کی زیادتی کو لے کر ہی ہم نے عدالت میں درخواست دی ہے اور مجسٹریٹ نے واقعہ کے دن کی سی سی ٹی وی فوٹیج مانگی ہے۔ لیکن ہماری جانکاری میں تو فوٹیج کورٹ میں جمع نہیں کیا گیا ہے۔‘‘


اطہر کی ماں نور جہاں کہتی ہیں کہ ’’مجھ سے تو اطہر کچھ نہیں بتاتا، شاید سوچتا ہے کہ میں پریشان ہو جاؤں گی، لیکن اس کی حفاظت کو لے کر میں صبر کے علاوہ کیا کر سکتی ہوں؟‘‘ وہ کہتی ہیں کہ ’’ہم نے تو رام منوہر لوہیا کو پڑھا تھا کہ جمہوریت میں سڑکیں سونی ہو جائیں گی، تو پارلیمنٹ آوارہ ہو جاتا ہے۔ لیکن جب آئین مخالف قانون کی مخالفت کرنے طلبا سڑکوں پر اترتے ہیں تو ان پر حملے ہوتے ہیں اور ان معصوموں کو جیلوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے۔‘‘

اطہر بی بی اے (آخری سال) کا طالب علم ہے۔ چار بھائیوں میں سب سے بڑا ہے۔ اطہر نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ گھر کا خرچ چلانے کے لیے مسالے کا کاروبار بھی شروع کیا تھا۔ لیکن اس کی گرفتاری کے بعد لوگوں نے اس کے یہاں سے سامان لینا تقریباً بند ہی کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ قریبی لوگوں نے بھی اس کے کنبہ کے لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔