دہلی فساد: کیا ہم اپنے گریبان میں جھانکنے کے لیے تیار ہیں؟... سہیل انجم

راقم کا یہ اندیشہ درست ثابت ہوا اور دہلی کے شمال مشرقی علاقے کو آگ اور خون کے دریا میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ گنتی اب فضول ہے کہ فسادات میں کتنے مرے اور کتنے زخمی ہوئے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سہیل انجم

راقم الحروف نے بہت پہلے اپنے ایک مضمون میں یہ اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ شہریت ترمیمی قانون کی حمایت اور مخالفت کے نام پر دہلی میں فساد کرانے کی سازش رچی جا رہی ہے۔ راقم کا یہ اندیشہ درست ثابت ہوا اور دہلی کے شمال مشرقی علاقے کو آگ اور خون کے دریا میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ گنتی اب فضول ہے کہ فسادات میں کتنے مرے اور کتنے زخمی ہوئے۔ اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا دہلی کے امن پسند طبقات اور بالخصوص مسلمانوں نے فسادات کے اندیشے کو نظرانداز کر دیا تھا۔

حالانکہ جس طرح جامعہ ملیہ اسلامیہ اور شاہین باغ میں گولیاں چلائی گئیں اور شاہین باغ میں ایک سڑک کو بند کرنے کی مخالفت میں سڑک سے لے کر عدالت تک سرگرمی دکھائی گئی، اس کے پیش نظر یہی کچھ ہونا تھا جو ہوا۔ لیکن ان لوگوں کو جو شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف پرامن احتجاج کرتے رہے ہیں ان کو اس کا احساس کیوں نہیں ہوا۔


جب 23 فروری بروز اتوار یہ خبر آئی کہ کم و بیش ایک ہزار خواتین نے جعفرآباد میٹرو اسٹیشن کے نیچے دھرنا شروع کر دیا ہے تو اسی وقت دل دھڑک اٹھا تھا کہ ہو نہ ہو کوئی انہونی ہو کر رہے گی۔ علاقے کے بعض ذمہ دار مسلمانوں نے ان خواتین کو وہاں سے اٹھانے کی کوشش کی مگر وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ بتایا جاتا ہے کہ ’’پنجرہ توڑ‘‘ نامی ایک گروپ اس دھرنے کے پس پردہ تھا۔

مقامی ذمہ دار مسلمانوں نے ان خواتین سے اپیل کی تھی کہ وہ مذکورہ تنظیم کے جھانسے میں نہ آئیں اور دھرنا ختم کر دیں۔ کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ دھرنا شاہین باغ کے معاملے پر سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت کو سبوتاژ کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ عدالت عظمیٰ نے شاہین باغ کے مظاہرین سے گفتگو کرنے کے لیے مذاکرات کار مقرر کرکے کسی حد تک نرمی دکھائی تھی اور مذاکرات کاروں نے بھی بالخصوص ان کے معاون وجاہت حبیب اللہ نے مظاہرین کے حق میں عدالت عظمیٰ میں حلف نامہ داخل کر دیا تھا۔


مذکورہ مذاکرات کاروں سنجے ہیگڑے اور سادھنا راما چندرن نے بھی مواقف موقف اختیار کیا تھا اور ان مقامات کا دورہ کرکے جہاں پولیس نے راستہ روکا ہے، پولیس کی اس کارروائی پر اظہار ناراضگی ظاہر کی تھی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ سپریم کورٹ اس معاملے پر اگر کوئی اہم فیصلہ نہیں بھی سنا سکا تو خیال کیا جاتا ہے کہ وہ حکومت کو یہ ہدایت دے گا کہ وہ احتجاجی خواتین سے بات کرے۔

لیکن جعفرآباد میں جب دھرنے کا آغاز کر دیا گیا تو اس پوری کوشش پر پانی پھر گیا۔ آخر یہ پنجرہ توڑ گروپ کون ہے جس نے شاہین باغ کے دھرنے کو ناکام بنانے کی سازش رچی۔ جس نے سپریم کورٹ کے موافق رخ کو مخالف رخ میں بدل دیا۔


لیکن ہم اس گروپ کو کیوں مورد الزام ٹھہرائیں۔ ہمیں تو ان لوگوں کی عقلوں پر ماتم کرنے کو جی چاہ رہا ہے جنھوں نے اپنی خواتین کو اس دھرنے میں جانے کے لیے آمادہ کیا یا جانے کی اجازت دی۔ حالانکہ اسی علاقے کی خواتین سیلم پور میں ایک سڑک کے کنارے بیٹھ کر احتجاج کر رہی تھیں تو پھر ایک سڑک بند کرنے کی کیا ضرورت پیش آگئی۔ جبکہ عدالت عظمیٰ بار بار یہ کہہ چکی ہے کہ احتجاج کا حق تو سب کو ہے لیکن راستہ بند کرنے کی اجازت کسی کو نہیں ہے۔ گویا اپنے پر امن احتجاج کے حق کو ہم نے ایک ہنگامے میں بدل دیا۔

بالآخر وہی ہوا۔ عدالت عظمیٰ نے شاہین باغ کے معاملے پر سماعت کو، ایک بار پھر یہ کہتے ہوئے کہ کسی کو سڑک بند کرنے کی اجازت نہیں ہے، ایک لمبے وقفے کے لیے مؤخر کر دیا۔ اس کا ذمہ دار کون ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ آخر شاہین باغ کی خواتین کب تک وہاں بیٹھی رہیں گی۔


حالانکہ اس دوران ایسے کئی مواقع آئے تھے جب انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ دھرنے کو ختم کیا جا سکتا تھا یا جگہ کو تبدیل کیا جا سکتا تھا۔ لیکن ایسے ہر موقع کو گنوا دیا گیا۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ شاہین باغ کے دھرنے کی ہوا نکل گئی ہے تو شاید بیجا نہیں ہوگا۔ جملہ سخت ہے لیکن حقائق پر مبنی ہے۔

دوسری طرف جعفرآباد کے دھرنے کو ختم کروانے اور دہلی میں تین دہائیوں کے بدترین فسادات کے بعد ان لوگوں کے حوصلے بلند ہو گئے ہیں جو سی اے اے کی مخالفت کرنے والوں کی مخالفت کر رہے ہیں اور جو اس قانون کے معاملے پر حکومت کے ساتھ ہیں۔ نہ صرف ان کے بلکہ ان شرپسندوں کے بھی حوصلے بلند ہو گئے ہیں جو ہر ایسے موقع پر گنگا اشنان کے لیے تیار رہتے ہیں۔ دہلی فسادات نے سی اے اے مخالف پر امن مظاہرے کو ہندو مسلم تنازعہ میں تبدیل کر دیا ہے۔


جعفرآباد میں کامیابی ملنے کے بعد مدن پور کھادر کے لوگوں نے سریتا وہار کی سڑک کھلوانے کے لیے یکم مارچ کو شاہین باغ تک مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن پولیس نے ان لوگوں کو سمجھا بجھا کر فیصلہ واپس لینے پر مجبور کر دیا ہے۔ لیکن کب تک۔ پولیس ایسے لوگوں کو کب تک روک سکے گی۔ جہاں تک شاہین باغ کے محل وقوع کا معاملہ ہے تو کچھ پلس پوائنٹس کے باوجود زیادہ دنوں تک دھرنا گاہ کو شرپسندوں سے محفوظ رکھنا ممکن نہیں رہ سکے گا۔

اب یہ کہنا کہ فسادات کے دوران پولیس نے پہلے تو اپنی ناکارکردگی کا مظاہرہ کیا اور اس کے بعد مسلمانوں کے خلاف ایکشن لیا، عقل مندی کی بات نہیں ہے۔ اس ملک میں جب بھی فساد ہوا ہے تو پولیس کا رول یہی رہا ہے۔ اندیشہ ہے کہ آگے بھی یہی رہے گا۔ اور وہ بھی ایسی صورت میں جب مرکز میں ایک ایسی حکومت قائم ہے جو سی اے اے مخالف مظاہروں کو ذرا بھی اہمیت دینا یا مظاہرین سے بات کرنا نہیں چاہتی۔ ماحول کے خراب ہونے سے مسلمانوں کو ہی نقصان پہنچے گا۔ لہٰذا اب مسلمانوں کو بہت سی سمجھداری سے کام لینا ہوگا ورنہ کسی اور علاقے میں آگ لگ جائے تو کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 01 Mar 2020, 10:11 PM