کیا بلیماران اسمبلی حلقہ 1993 کی اپنی تاریخ دہرائے گا؟

عام آدمی پارٹی کے امیدوار اور دہلی کے وزیر عمران حسین علاقہ میں مقبول ہیں اور وہ عوام سے جڑنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن عام آدمی پارٹی کے سی اے اے پر موقف سے لوگوں میں بے چینی ہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سید خرم رضا

بلیماران اسمبلی حلقہ دہلی کا وہ انتخابی حلقہ ہے جس نے 1993 کے اسمبلی انتخابات میں تاریخ رقم کی تھی۔ 1993 میں دہلی اسمبلی کے لئے ہونے والے پہلے انتخابات میں سب سے زیادہ خبروں میں بلیماران اسمبلی حلقہ رہا تھا، اس کے خبروں میں رہنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ واحد مسلم اکثریتی اسمبلی حلقہ تھا جس پر کانگریس کے ہارون یوسف کامیاب ہوئے تھے۔ 1993 میں بابری مسجد کی شہادت کی وجہ سے مسلمان کانگریس سے بہت ناراض تھے اور دیگر تمام مسلم اکثریتی علاقوں سے جنتا دل کامیاب ہوئی تھی، دہلی میں مدن لال کھورانہ کی قیادت میں بی جے پی نے حکومت بنائی تھی، جبکہ کانگریس صرف 14 سیٹیں ہی جیت پائی تھی۔ لیکن 1998 سے لے کر سال 2013 تک شیلا دیکشت کی قیادت میں کانگریس بر سراقتدار رہی۔ سال 2015 میں جب دہلی میں عام آدمی پارٹی کی آندھی چل رہی تھی اس وقت پہلی مرتبہ بلی ماران سے کانگریس ہاری اور عام آدمی پارٹی کے امیدوار عمران حسین نہ صرف جیتے بلکہ وہ وزیر بھی بنے۔

مسلمانوں میں عام آدمی پارٹی کی مقبولیت کی وجہ مفت بجلی اور مفت پانی کے ساتھ ان کے اندر بی جے پی کو ہرانے کی طاقت ہے لیکن اس مرتبہ شہریت ترمیمی قانون اور مجوزہ این آر سی کی وجہ سے مسلمانوں میں نہ صرف بے چینی ہے بلکہ وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ اس قانون کے خلاف لڑائی میں کون سی سیاسی پارٹی ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ کانگریس بالکل کھل کر اس قانون کے خلاف ہے جبکہ عام آدمی پارٹی انتخابی مصلحتوں کی وجہ سے اس سارے معاملہ سے دوری بنائے ہوئے ہے۔ اس حلقہ سے کانگریس کے امیدوار اور سابق وزیر ہارون یوسف کا کہنا ہے ’’کانگریس سیکولر اقدار کے لئے ہمیشہ آگے کھڑی رہی ہے اور اس نے بی جے پی کے فرقہ وارانہ ایجنڈے کے ساتھ کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، جبکہ تحریک سے نکلی عام آدمی پارٹی آج نہ تو جے این یو کے طلباء کے ساتھ کھڑی ہوتی دکھائی دینا چاہتی ہے اور نہ ہی شاہین باغ مظاہرین کے ساتھ، یہ پہلو کافی تشویشناک ہے اور ووٹر اس سارے معاملہ کو لے کر پریشان اور غصہ میں ہے۔‘‘


عام آدمی پارٹی کے امیدوار اور دہلی کے وزیر عمران حسین علاقہ میں مقبول ہیں اور وہ عوام سے جڑنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن عام آدمی پارٹی کے سی اے اے پر موقف سے لوگوں میں بے چینی ہے۔ لال کنواں کے رہنے والے محمد عظیم کا کہنا ہے ’’ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ آج اس نازک وقت میں ہمارے ساتھ کون کھڑا ہے، کیونکہ لڑائی اب بقا کی ہے تو اس معاملے میں ہمیں کانگریس کے علاوہ کوئی اور نہیں دکھائی دیتا۔‘‘ عمران کے حامی جہاں عآپ کے موقف کو لے کر کوئی جواب نہیں دے پا رہے ہیں وہیں وہ اس بات سے بھی ناراض ہیں کہ شعیب اقبال کو آخری وقت میں پارٹی میں شامل کر کے کیوں امیدوار بنایا۔

بلی ماران اسمبلی حلقہ میں مسلمانوں کے ساتھ دلت ووٹوں کی بہت اہمیت ہے اور بی جے پی یہاں سے دلت رہنما موتی لال سوڈھی کو چناؤ لڑاتی رہی ہے، اس مرتبہ بھی بی جے پی نے ان کی بیٹی لتا سوڈھی کو امیدوار بنایا ہے۔ دلت ووٹر منقسم نظر آرہا ہے اور یہ ووٹر جس کی جانب چلا گیا اس کو بڑھت حاصل ہو سکتی ہے۔


اس اسمبلی حلقہ سے عمران کو سال 2015 میں 57 ہزار سے زیادہ ووٹ ملے تھے، جبکہ دوسرے نمبر پر بی جے پی امیدوار کو 23 ہزار اور ہارون یوسف کو صرف 13 ہزار ووٹ ملے تھے۔ جبکہ سال 2013 میں ہارون یوسف کو 32 ہزار، بی جے پی کو 24 ہزار، بی ایس پی کے امیدوار عمران حسین کو 14 ہزار ووٹ جبکہ عآپ کی امیدوار فرحانہ کو 11 ہزار سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔

سال 2008 میں ہارون کو 34 ہزار سے زیادہ، بی جے پی کو 28 ہزار سے زیادہ اور بی ایس پی کو دس ہزار سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔ ان اعداد و شمار سے یہ صاف ظاہر ہے کہ دس بارہ ہزار دلت ووٹر فیصلہ کن ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا بلیماران اسمبلی حلقہ میں 1993 کی تاریخ دہرائی جائے گی یا نہیں، کیونکہ اس وقت بھی فرقہ وارانہ منافرت اپنے شباب پر تھی اور آج بھی اپنے شباب پر ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔