دہلی کی گھٹن والی ہوا، اگلے 3 دن تک سانس لینا مشکل، پہاڑوں پر برف باری سے ٹھنڈ بڑھے گی

پہاڑی علاقوں میں  آنے والے دنوں میں برف باری ہوسکتی ہے جس کا براہ راست اثر میدانی علاقوں پر پڑے گا اور یہاں ٹھنڈ بڑھ سکتی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

دہلی کے ماحول میں کوئی بہتری کی خبر نہیں ہے۔ہر روز کی طرح ہفتہ کو بھی لوگوں کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ ہفتہ کو مسلسل تیسرے دن، ایئر کوالٹی انڈیکس (AQI) 'شدید' زمرے میں رہا۔ آنے والے دنوں میں دہلی-این سی آر کے لوگوں کو بھی کوئی راحت نہیں ملنے والی ہے۔ محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ شہر کی آلودگی کی سطح اگلے تین روز تک اسی طرح رہے گی۔

ہفتہ کو قومی راجدھانی میں  415 ’اے آئی کیو  ‘ریکارڈ کیا گیا۔ ہلکی آندھی، دھواں اور کھجور کے دھویں نے مل کر ایسی صورتحال پیدا کر دی کہ لوگوں کا سانس لینا مشکل ہو گیا۔ ایسا ہی کچھ اتوار کو بھی دیکھنے کو ملے گا۔ اتوار کو دارالحکومت کے تقریباً تمام بڑے علاقوں میں ’اے آئی کیو  ‘400 سے اوپر رہنے والا ہے۔ اگر ہم درجہ حرارت کی بات کریں تو کم از کم درجہ حرارت 18 ڈگری سیلسیس اور زیادہ سے زیادہ 31 ڈگری سیلسیس ہونے جا رہا ہے۔


گریٹر نوئیڈا دہلی-این سی آر میں سب سے زیادہ آلودہ شہر رہا ہے۔ یہاں ’اے آئی کیو  ‘490 ریکارڈ کیا گیا۔ نوئیڈا میں 408’اے آئی کیو  ‘ اور گروگرام میں ’اے آئی کیو  ‘404 ریکارڈ کیا گیا ہے۔

یوپی، بہار اور راجستھان جیسی ریاستوں میں نومبر میں موسم میں زیادہ تبدیلی آنے والی نہیں ہے۔ فی الحال موسم ایسے ہی رہنے کی توقع ہے۔ صبح و شام درجہ حرارت میں کمی کے باعث لوگوں کو ہلکی سردی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ دوپہر کے وقت ہلکی دھوپ کی وجہ سے بھی گرمی محسوس ہوگی۔ زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 30 ڈگری کے آس پاس جبکہ کم سے کم درجہ حرارت 18 سے 20 ڈگری کے درمیان ریکارڈ کیا جائے گا۔


پہاڑی ریاستوں اتراکھنڈ، ہماچل پردیش اور جموں و کشمیر میں درجہ حرارت میں زیادہ تبدیلی نہیں دیکھی جا رہی ہے۔ لیکن آنے والے دنوں میں یہ تبدیلی ہو سکتی ہے۔ اس وقت ان ریاستوں کی وادیوں میں رہنے والے لوگوں کو ہلکی سردی اور کپکپاہٹ کا سامنا ہے۔ لیکن آنے والے دنوں میں یہاں برف باری ہوسکتی ہے جس کا براہ راست اثر میدانی علاقوں پر پڑے گا۔ برفباری کے باعث میدانی علاقوں میں درجہ حرارت گر سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔