خلع میں شوہر کی رضامندی ضروری، کیرالہ ہائی کورٹ کا فیصلہ ناقابل قبول: مسلم پرسنل لا بورڈ

کیرالا ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ مسلمانوں کے لئے ناقابل قبول اور تکلیف دہ ہے اور مسلم پرسنل لا بورڈ عنقریب اس فیصلہ کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کرے گا۔

فائل تصویر آئی اے این ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس
user

یو این آئی

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کیرالا ہائی کورٹ کے خلع سے متعلق فیصلہ پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت کا یہ فیصلہ قانون کی تشریح سے آگے بڑھ کر خود قانون وضع کرنے کے درجہ میں ہے، جو یقیناََ عدالت کے دائرۂ اختیار سے باہر ہے۔
انہوں نے جاری ریلیز میں کہا کہ عدالت کا فریضہ ہے کہ شریعت اپلی کیشن ایکٹ 1937 میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کی تشریح کرے اور جو معاملہ سامنے آئے اس کو اس پر منطبق کرے، نہ یہ کہ وہ اپنی طرف سے اس میں اضافہ کرے یا اپنے آپ کو اس میں ردوبدل کا مجاز سمجھے، اسلام میں شوہر وبیوی کے درمیان علیحدگی کے لئے تین طریقے متعین ہیں اور یہ قرآن وحدیث سے ثابت ہیں، اول: طلاق، جس کا اختیار مرد کو دیا گیا ہے اور تاکید کی گئی ہے کہ وہ اس کا بیجا استعمال نہ کرے، دوسرے: خلع، جس میں شوہر اور بیوی کی باہمی رضامندی سے طلاق واقع ہوتی ہے، اس صورت میں بھی بیوی یک طرفہ طور پر خلع نہیں کر سکتی، یہ بھی طلاق ہی کی ایک صورت ہے۔ البتہ اس میں شوہر وبیوی کی آپسی مفاہمت شامل رہتی ہے، تیسری صورت فسخ نکاح کی ہے، جو عدالت کے ذریعہ انجام پاتا ہے، اگربیوی علیحدگی چاہتی ہو اور شوہر طلاق دینے کو تیار نہ ہو تو اب کورٹ کے ذریعہ فیصلہ ہوتا ہے، اگر کورٹ نے محسوس کیا کہ واقعی عورت مظلوم ہے تو نکاح فسخ کر سکتا ہے اور اگر وہ اس نتیجہ پر پہنچی کہ عورت کا دعویٰ صحیح نہیں ہے تو درخواست رد کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قرآن وحدیث سے زوجین کے درمیان علیحدگی کی یہی تین صورتیں ثابت ہیں، لہٰذا خلع میں بھی شوہر کی رضامندی ضروری ہے، ہاں اگر شوہر نے ایک معاہدہ کے تحت بیوی کو حق دیا ہو کہ وہ اپنے آپ پر طلاق واقع کر سکتی ہے تو اس صورت میں بیوی شوہر کی رضامندی کے بغیر بھی اپنے آپ پر طلاق واقع کر سکتی ہے، اس کو فقہ کی اصطلاح میں ’’ تفویض طلاق ‘‘ کہتے ہیں، کیرالا ہائی کورٹ میں ابھی جسٹس اے محمد مشتاق اور جسٹس سی ایس ڈائس نے خلع کی جو تشریح کی ہے، اس کے مطابق بیوی یکطرفہ طور پر خلع لے سکتی ہے، یہ نہ قرآن وحدیث کے مطابق ہے اور نہ معتبر علماء وفقہاء نے اس قسم کی بات کہی ہے، عدالت نے اپنے حدود واختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ اس سلسلے میں فقہاء کی تشریح کا کوئی اعتبار نہیں ہے، بلکہ ججز کی تشریح کا اعتبار ہے، یہ قانون کے ماہرین کی طرف سے مذہب کا ماہر ہونے کا ادعاء ہے، کسی بھی مذہب کو ماننے والے اپنے مذہب کی تشریح کے سلسلے میں جن شخصیتوں پر بھروسہ کرتے ہیں، ظاہر ہے کہ ان ہی کی تشریح قابل قبول ہوگی، جیسا کہ ہندوستان کے دستور وقانون کی تشریح کے سلسلہ میں ، کسی مذہبی عالم کی بات سند نہیں ہو سکتی، اسی طرح مذہبی احکام کی تشریح میں مذہب کے شارحین کی رائے کے بر خلاف کسی ماہر قانون کی بات قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ کیرالا ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ مسلمانوں کے لئے ناقابل قبول اور تکلیف دہ ہے، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ عنقریب اس فیصلہ کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کرے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔