شنکراچاریہ کا انتقال، پورے معاشرے کے لئے ناقابل تلافی نقصان

شنکراچاریہ ہونے کے باوجود وہ اکثر سنگھ کے نشانے پر رہتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ سنگھ کی عوامی سطح پر تنقید کرنے سے کبھی پیچھے نہیں رہتے تھے۔

فائل تصویر آئی اے این ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

دوارکا شاردا پیٹھ کے شنکراچاریہ سوامی سوروپانند سرسوتی کا دنیا سے چلے جانا یقیناً پورے سناتن دھرم کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ جب کسی بھی مذہب کا اتنا بڑا مذہبی رہنما دنیا سے کوچ کر جاتا ہے تو وہ لمحہ ان کے پیروکاروں کے ساتھ ساتھ اس پورے معاشرے کے لیے بھی بڑا دھچکا ہوتا ہے۔ ان کی موت پر سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزرائے اعلیٰ سے لے کر کانگریس کے رہنماؤں نے بھی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کی ۔ اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے ان کی موت کو پورے سنت سماج کے لیے ناقابل تلافی نقصان قرار دیا ہے۔

ملک کی آزادی سے بہت پہلے جبل پور، مدھیہ پردیش میں واقع ایک چھوٹے سے گاؤں دیگھوری میں 2 ستمبر 1924 کو پیدا ہوئے سوروپانند سرسوتی نے 9-10 سال کی عمر میں گھر چھوڑ دیا تھااور مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے لیے سیدھے کاشی چلے گئے تھے۔ لیکن مذہب کو قبول کرنے والے اس سنیاسی نے قومی قربانی میں بھی بے پناہ حصہ لیا۔ جب 1942 میں 'برطانوی ہندوستان چھوڑ دو' کا نعرہ دیا گیا تو سوامی جی بھی آزادی کی جدوجہد میں کود پڑے۔ وہ جیل میں بھی رہے اور 19 سال کی عمر میں وہ ملک کے واحد ایسے سادھو بن گئے تھے جنہیں 'انقلابی سادھو' کے طور پر پہچانا جاتا تھا اور لوگ انہیں اسی نام سے پکارتے تھے۔


سوامی سوروپانند سرسوتی ایسے شنکراچاریہ تھے جو اپنے کھلے بیانات کے لیے جانے جاتے تھے جس کی وجہ سے وہ کئی بار تنازعات میں بھی گھرے ۔ ان پر کانگریسی شنکراچاریہ ہونے کا الزام بھی لگایا گیا کیونکہ سال 1990 میں جب راجیو گاندھی زندہ تھے تب انہوں نے پرینکا گاندھی کے گھر میں داخلے کی رسمی پوجا کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے پرینکا نے اپنے ٹویٹ میں اس واقعہ کا ذکر بھی کیا۔

سناتن دھرم میں شنکراچاریہ کا لقب سب سے اوپر ہے اور ایک عقیدہ ہے کہ سماج کے زیادہ تر لوگ ان کے منہ سے نکلنے والے الفاظ کو صرف برہمواکیہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ لیکن آپ کو بتاتے چلیں کہ شنکراچاریہ ہونے کے باوجود وہ اکثر سنگھ کے نشانے پر رہتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ سنگھ کی عوامی سطح پر تنقید کرنے سے کبھی پیچھے نہیں رہتے تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔