آن لائن گیم پب جی کی وجہ سے نوجوان کی موت

موت والے دن فرقان پب جی کھیل رہا تھا۔ تبھی اچانک اس نے زور زور سے چللانا شروع کر دیا۔ وہ کسی کا نام لے کر کہہ رہا تھا کہ اس کی وجہ سے وہ کھیل ہار گیا اور گیم میں اسے مار دیا گیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

نیمچ: مدھیہ پردیش کے نیمچ ضلع ہیڈکوارٹر پر موبائل فون پر کھیلے جانے والے آن لائن گیم 'پب جي' کے عادی ایک نوجوان کی پبجی گیم کھیلنے کے دوران ہی موت کا سنسنی خیز معاملہ سامنے آنے کے بعد اب اس پر پابندی کا مطالبہ اٹھنے لگا ہے۔ پلیئر اننونس بیٹل گراؤنڈ (پب جی) موبائل فون پر کھیلے جانے والا گیم ہے، جو نوجوانوں کے درمیان کافی مقبول ہے۔غیر ملکی کمپنی کی طرف سے تیار آن لائن گیم پب جی میں اسلحہ کے ذریعہ دشمنوں پر جیت حاصل کرنا ہوتا ہے۔

ببجی گیم کھیلنے کے دوران 28 مئی کو فرقان قریشی نامی ایک 16 سالہ نوجوان کی اچانک موت ہو گئی تھی۔ اس کی موت سے پورا خاندان صدمے میں ہے۔ اس دن وہ تقریبا چھ گھنٹے تک مسلسل یہ گیمس کھیلتا رہا اور ہیڈ فون لگا کر زور زور سے چیخ رہا تھا۔ اسی دوران وہ بے ہوش ہو گیا اور اسپتال لے جانے پر ڈاکٹروں نے کہا کہ اس کی یہاں پہنچنے سے پہلے ہی موت ہو چکی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وہ گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے پب جی گیم کھیل رہا تھا۔


جس روز فرقان کی موت ہوئی وہ اس دن شام کو لیٹا ہوا پب جی کھیل رہا تھا۔ تبھی اچانک اس نے زور زور سے چللانا شروع کر دیا۔ وہ کسی کا نام لے کر کہہ رہا تھا کہ اس کی وجہ سے وہ کھیل ہار گیا اور گیم میں اسے (فرقان) مار دیا گیا ہے۔ اس نے ہیڈ فون نکالا اور کچھ ہی دیر میں وہ بے ہوش ہو گیا۔

اس کے والد ہارون راشد قریشی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو کئی مرتبہ پب جی گیم کھیلنے سے روکتے تھے لیکن وہ سنتا ہی نہیں تھا۔ کئی گھنٹوں تک موبائل پرہیڈ فون لگا کر اس گیم کو کھیلتا تھا۔ انہوں نے انتظامیہ اور حکومت سے میڈیا کے ذریعے مطالبہ کیا ہے کہ اس کھیل پر پابندی لگائی جائے۔


راشد قریشی نے بتایا کہ ان کا بیٹا فرقان بارہویں کلاس کا طالب علم تھا۔ وہ تقریباً ڈیڈھ سال سے پب جی کھیل رہا تھا۔ کئی بار تین چار گھنٹے تک کھیلا کرتا تھا۔ انکار کرنے کے باوجود مانتا نہیں تھا۔ وہ کان میں ہیڈ فون لگا کر زور زور سے دھماکہ کرنے یا مارنے کی باتیں کیا کرتا تھا۔

حادثے کے دن بھی وہ اچانک چلانے لگا کہ دھماکہ کرو۔ کچھ ہی دیر میں فرقان کے جسم کا رنگ بدل گیا اور وہ لال ہو گيا۔ راشد قریشی کے مطابق بیٹے کو ڈاکٹر اشوک جین کے پاس لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کی ان کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی موت ہو چکی تھی۔


اس دوران مندسور ضلع کے ایک رکن اسمبلی یشپال سنگھ سسودیا نے فرقان کی موت پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور انتظامیہ اس پر پابندی کے لئے فوری طور پر اقدامات کا مطالبہ کیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 01 Jun 2019, 9:10 PM