دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ: مسلمان سود کے پیسوں سے کر سکتے ہیں غریبوں کی امداد

فتوی کے مطابق بینک میں جمع سود کے پیسے کا استعمال مسلمان غریبوں کی مدد میں کر سکتے ہیں، لاک ڈاؤن کے وقت اگر محتاج و تنگ دست اور پریشان حال لوگوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو اس میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں

تصویر: دار العلوم دیوبند
تصویر: دار العلوم دیوبند
user

آس محمد کیف

دیوبند: کورونا وائرس کی وجہ سے پورا ہندوستان بحرانی کیفیت میں مبتلا ہے۔ ایسے وقت میں اسلامی مذہبی تعلیم کے مرکز دارالعلوم دیوبند نے ایک انتہائی اہم فتویٰ جاری کیا ہے۔ اس فتویٰ کے مطابق بینک میں جمع سود کے پیسے کا استعمال مسلمان غریبوں کی مدد میں کر سکتے ہیں۔

یہ فتویٰ دارالعلوم دیوبند کے تین رکنی پینل نے جاری کیا ہے۔ پینل میں مشہور عالم دین مفتی محمود بلند شہری کے بھی دستخط ہیں۔ فتویٰ کو مفتی نعمان نے قلم بند کیا ہے اور اس پر تحقیق مفتی حبیب الرحمن خیر آبادی نے بھی کی ہے۔ فتویٰ کافی مطالعے (تحقیق) کے بعد جاری گزشتہ 25 اپریل کو جاری کیا گیا۔

دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ: مسلمان سود کے پیسوں سے کر سکتے ہیں غریبوں کی امداد

اس فتویٰ کے لیے سوال کرناٹک کے باشندہ محمد اسامہ نے قائم کیا تھا۔ انھوں نے پوچھا تھا کہ ان کی مسجد کے اکاؤنٹ میں سود کا بہت سارا پیسہ جمع ہے، کیا وہ اس پیسے سے موجودہ مشکل وقت میں غریبوں کی مدد کر سکتے ہیں؟ کیا یہ جائز ہے؟ اس کے جواب میں دارالعلوم دیوبند نےجو فتویٰ جاری کیا ہےاس میں لکھا گیا ہے کہ سود اسلام میں پوری طرح حرام ہے، لیکن لاک ڈاؤن کے دوران بینک سے آپ کی جمع پونجی پر حاصل سود سے تنگ حال اور ضرورت مند لوگوں کی مدد کی جا سکتی ہے۔ سود کی اس رقم کو نجی طور پر اور مسجد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اس رقم سے غریبوں کی مدد کی جا سکتی ہے۔ اس میں شرعی اعتبار سے کوئی حرج نہیں ہے۔ اس سے اگر آپ کسی کو راشن خرید کر دینا چاہتے ہیں تو یہ اچھا ہے۔


اپنے سوال کے جواب میں فتویٰ حاصل کرنے کے بعد محمد اسامہ کافی خوش ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ سوال اس لیے پوچھا تھا کہ ان کی مسجد کے بینک میں جمع پیسے کا سود کافی ہو گیا ہے اور اسے ہم مسجد میں استعمال نہیں کر سکتے ہیں۔ اب ہم اس پیسے سے لاک ڈاؤن میں پھنسے ضرورت مند لوگوں کی بغیر کسی تفریق مدد کریں گے۔

غور طلب ہے کہ اسی ہفتہ مولانا ارشد مدنی نے بھی اپیل جاری کر کے کہا تھا کہ اس بار جمعیۃ کو چندہ نہ دیا جائے بلکہ اس پیسے سے اپنے پڑوسی کی تکلیف کو سمجھ کر اس کی مدد کی جائے، بھلے ہی وہ ہندو ہو۔ اس مدد میں کسی طرح کی کوئی تفریق نہیں کی جانی چاہیے۔


بہر حال، سودی پیسوں سے غریبوں کی مدد کے لیے جاری فتویٰ پر مولانا شعیب عالم قاسمی سکندر پوری کا کہنا ہے کہ اس مشکل حالت میں غریب اور ضرورت مند لوگوں کی جہاں تک ہو سکے زیادہ سے زیادہ مدد کرنی چاہیے، ویسے بھی یہ رمضان کا مبارک مہینہ ہے جس میں غریبوں پر خرچ کرنا بہت بڑا ثواب کا کام ہے۔ میرٹھ کے حاجی نفیس فتویٰ کے تعلق سے کہتے ہیں کہ "مسلمان تو بلاسودی پیسوں سے بھی لوگوں کی مدد کر رہے ہیں، لیکن یہ کاروباری مسلمانوں کے لیے بہت مفید اور رہبری کرنے والا ہے۔ یقیناً اب بڑے پیمانے پر لوگوں کی مدد کی جائے گی۔ ہمیں اس مشکل میں سب کے ساتھ کھڑے رہنا ہے۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 05 May 2020, 8:00 PM