دلت دولہے کو گھوڑی پر چڑھنے سے روکا، تو پولیس فورس کے ساتھ ہاتھ میں آئین کی کتاب لے کر نکالی بارات

بارات نکالنے سے پہلے تقریباً 100 پولیس اہلکاروں نے گاؤں میں فلیگ مارچ کیا، پھر بارات کو سیکورٹی دے کر گاؤں سے باہر لے گئے۔ اس دوران خوف کے سائے میں لوگ جھومتے اور رقص کرتے نظر آئے۔

تصویر بشکریہ اے این آئی
تصویر بشکریہ اے این آئی
user

قومی آوازبیورو

بھوپال: مدھیہ پردیش کے نیمچ ضلع کے ایک گاؤں میں ایک دلت نوجوان کو دبنگوں کی دھمکی کے بعد پولیس کے سائے میں بارات نکالنا پڑی۔ این ڈی ٹی وی میں شائع رپورٹ میں پولیس افسر کے حوالہ سے کہا گیا ہے کہ مناسا تھانہ علاقہ کے سارسی گاؤں میں دبنگوں نے دلت دولہے کو گھوڑے پر چڑھ کر بارات نہیں نکالنے کی دھمکی دی تھی۔ شکایت موصول ہونے پر پولیس افسران گاؤں پہنچے اور ڈی جے بجا کر دھوم دھام سے بارات نکلوائی۔

بارات نکالنے سے پہلے تقریباً 100 پولیس اہلکاروں نے گاؤں میں فلیگ مارچ کیا، پھر بارات کو سیکورٹی دے کر گاؤں سے باہر لے گئے۔ اس دوران خوف کے سائے میں لوگ جھومتے اور رقص کرتے نظر آئے۔ دولہا بھی ہاتھ میں آئین کی کاپی لیے گھوڑی پر بیٹھا تھا۔ یہ واقعہ یوم جمہوریہ کے اگلے دن پیش آیا۔


رپورٹ کے مطابق مناسا سے تقریباً 3 کلومیٹر دور واقع گاؤں سراسی کے فقیر چند میگھوال نے بیٹے راہل کی شادی میں دبنگوں کی جانب سے ماحول خراب کرنے کی شکایت ضلع کلکٹر سے کی تھی۔ اس پر کلکٹر نے پولیس افسران کو دلت خاندان کو سیکورٹی فراہم کرنے کی ہدایت دی۔ جمعرات کو جب راہل کی بارات نکلی تو پورے گاؤں میں تین تھانوں کی پولیس موجود تھی۔ اس دوران تحصیلدار، ایس ڈی او پی، ایس ڈی ایم سمیت تمام افسران موجود تھے۔

دلت دولہے راہل میگھوال نے بتایا کہ دبنبگوں نے اس کے گھر والوں کو دھمکی دی تھی کہ اگر بارات گھوڑی پر نکالی گئی تو اسے ایک سال میں گاؤں چھوڑنا پڑے گا۔ اس کے بعد اس کے والد نے ضلع کلکٹر کو درخواست دی تو پولیس افسران نے آکر بارات نکلوائی۔


بھیم آرمی کے رکن سنیل نے بتایا کہ دولہے راہل میگھوال کی جانب سے اطلاع دیئے جانے کے بعد وہ یہاں پہنچے۔ سنیل نے کہا کہ سماج میں ذات پات کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ کوئی بھی اعلیٰ ذات کا فرد نہیں چاہتا کہ کوئی دلت یا قبائلی لڑکا گھوڑے پر بیٹھ کر گاؤں سے بارات نکالے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف ہندوستان کے عالمی گرو بننے کی باتیں ہو رہی ہیں، لیکن دوسری طرف آپ دیکھیں گے کہ یہاں کیا حال ہے!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */