گوا: مشکل میں بی جے پی، اتحادی پارٹیوں نے کہا ’حمایت پاریکر کو تھی، بی جے پی کو نہیں‘

گوا میں وزیر اعلیٰ کے نام پر ابھی تک راستہ صاف نہیں ہو سکا ہے۔ منوہر پاریکر کے انتقال کے بعد سیاسی حلقوں میں گہما گہمی ہے اور بی جے پی کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ ساتھی پارٹیوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

گوا کی سیاست میں زبردست ہلچل شروع ہو چکی ہے۔ وزیر اعلیٰ منوہر پاریکر کے انتقال کے بعد سب سے زیادہ بحرانی کیفیت بی جے پی کے سامنے ہے۔ ایسا اس لیے کیونکہ اس کی ساتھی پارٹیوں نے صاف کہہ دیا ہے کہ انھوں نے منوہر پاریکر کو حمایت دی تھی، بی جے پی کو نہیں۔ بی جے پی کی ساتھی پارٹیوں نے بی جے پی سے سیدھا سوال پوچھا ہے کہ اب وزیر اعلیٰ کس پارٹی سے اور کون بنے گا! سیاسی گھمسان شروع ہونے کے اندیشہ اور اپنے اراکین اسمبلی کو بھٹکنے سے روکنے کے لیے بی جے پی نے مرکزی وزیر نتن گڈکری کو کل رات ہی گوا بھیج دیا جہاں انھوں نے پارٹی اراکین اسمبلی کے ساتھ میٹنگ کی۔

غور طلب ہے کہ بی جے پی نے گوا میں گوا فارورڈ پارٹی، مہاراشٹروادی گومانتک پارٹی اور آزاد اراکین اسمبلی کی حمایت سے حکومت سازی کی تھی۔ ان سبھی پارٹیوں نے بی جے پی کی جگہ منوہر پاریکر کو حمایت دی تھی اس لیے انھیں مرکز میں وزارت دفاع سے واپس گوا بھیجا گیا تھا۔

منوہر پاریکر کے انتقال کے بعد وزیر اعلیٰ کے نام سے متعلق نتن گڈکری کے ساتھ مہاراشٹروادی گومانتک پارٹی کے لیڈر سُدن دھولیکر اور گو افارورڈ پارٹی کے وجے سردیسائی نے الگ الگ ملاقات کی۔ وجے سردیسائی کے ساتھ ان کی پارٹی کے دو اراکین ونود پالیکر اور جیئش سلگاؤنکر کے علاوہ دو آزاد رکن اسمبلی روہن کھونٹے اور گووند گاؤڑے بھی تھے۔

اس میٹنگ کے بعد وجے سردیسائی نے میڈیا سے صاف کہا کہ ’’ہم نے منوہر پاریکر کو حمایت دی تھی نہ کہ بی جے پی کو۔ اب جب وہ نہیں رہے تو متبادل کھلے ہوئے ہیں۔ ہم گوا میں استحکام چاہتے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ اسمبلی کو تحلیل کیا جائے۔ ہم بی جے پی کے فیصلے کا انتظار کریں گے اور اس کے بعد اگلا قدم اٹھائیں گے۔‘‘

دوسری طرف ایم جی پی لیڈر سُدین دھولیکر نے نتن گڈکری سے ملاقات کے بعد کہا کہ وہ اپنے اراکین اسمبلی کے ساتھ بات چیت کے بعد اس سلسلے میں فیصلہ لیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ’’میں اپنی پارٹی کی ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ میں جا رہا ہوں، میں ان سے مشورہ کروں گا۔ اس کے بعد طے ہوگا کہ وزیر اعلیٰ عہدہ کے لیے امیدوار کون ہیں۔‘‘

اس دوران گوا اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر مائیکل لوبو کا بھی بیان آیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’سُدین دھاولیکر خود وزیر اعلیٰ بننا چاہتے ہیں۔‘‘ انھوں نے کہا کہ وہ بی جے پی کو حمایت دے کر کئی بار قربانی دے چکے ہیں۔ انھوں نے اپنے مطالبے کو سامنے رکھا لیکن بی جے پی اس سے متفق نہیں ہوئی۔

اس سے قبل گوا میں کانگریس نے گورنر مردولا سنہا کو ہفتہ کے روز خط لکھ کر سرکار بنانے کا دعویٰ پیش کیا تھا۔ پارٹی نے دعویٰ کیا کہ بی جے پی رکن اسمبلی فرانسس ڈیسوزا کے انتقال کے بعد منوہر پاریکر سرکار نے اسمبلی میں اپنی اکثریت کھو دی ہے۔ 40 رکنی گوا اسمبلی میں فی الحال 37 اراکین اسمبلی ہیں۔ ان میں سے 14 اراکین اسمبلی کانگریس کے ہیں، جب کہ بی جے پی کے اراکین اسمبلی کی تعداد 13 ہے۔

کانگریس نے گورنر کو لکھے اپنے خط میں کہا ہے کہ ’’ہمارا اندازہ ہے کہ بی جے پی کی تعداد میں مزید کمی آئے گی۔ اقلیت میں ہونے والی اس طرح کی پارٹی کو اقتدار میں بنے رہنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔ اس لیے یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ بی جے پی قیادت والی ریاستی حکومت کو برخاست کریں اور یہ یقینی بنائیں کہ کانگریس پارٹی، جو ایوان میں سب سے بڑی پارٹی ہے اور ابھی جس کے پاس اکثریت ہے، اسے حکومت بنانے کے لیے بلایا جائے۔‘‘

دھیان رہے کہ 2017 میں ہوئے اسمبلی انتخاب میں کانگریس سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی۔ 40 سیٹوں والی اسمبلی میں کانگریس کو 17 سیٹیں ملی تھیں۔ وہیں بی جے پی کو 13 سیٹوں پر جیت درج ہوئی تھی۔ لیکن بی جے پی جوڑ توڑ کر حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 18 Mar 2019, 12:09 PM