بی جے پی حکمراں ریاستوں میں ایس سی-ایس ٹی کے خلاف جرائم کے معاملے میں اضافہ، یوپی سب سے آگے

ارجن رام میگھوال نے بتایا کہ ’’این سی آر بی کے مطابق گزشتہ 5 سالوں میں راجستھان، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر اور گجرات جیسی ریاستوں میں ایس سی-ایس ٹی انسداد مظالم ایکٹ کے تحت ہزاروں معاملے درج ہوئے ہیں۔‘‘

<div class="paragraphs"><p>پارلیمنٹ (فائل), تصویر ’انسٹاگرام‘</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

ملک میں ایس سی-ایس ٹی پر مظالم کے معاملوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ 5 سالوں میں درج معاملوں کی تعداد بڑھی ہے، لیکن عدالتوں میں سست رفتاری کے باعث زیر التوا معاملوں کا بوجھ بڑھتا گیا ہے۔ واضح رہے کہ درج فہرست ذات اور قبائل پر مظالم کے سب سے زیادہ معاملے بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں درج ہوئے ہیں۔

ایس سی-ایس ٹی پر مظالم کے متعلق پارلیمنٹ میں مرکزی حکومت نے اپنے جواب میں بتایا ہے کہ ’’2019 میں ایس سی-ایس ٹی پر ظلم کے مجموعی طور پر 45948 معاملے درج ہوئے تھے۔ 2020 میں یہ تعداد بڑھ کر 50268 ہو گئی۔ 2021 میں 50879، 2022 میں 57569 اور 2023 میں مجموعی طور پر 57766 معاملے درج کیے گئے۔‘‘ حکومت نے کہا کہ ’’عدالتوں میں معاملات کے تصفیے کی رفتار سست ہونے کے باعث زیر التوا معاملوں کی تعداد 2019 میں 19034 تھی، جو 2023 تک بڑھ کر 31110 ہو گئی۔‘‘


حکومت کی جانب سے دی گئی جانکاری کے مطابق درج فہرست قبائل سے متعلق معاملوں میں بھی تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔ 2019 میں 7567 معاملے درج تھے جو 2023 میں 14259 تک بڑھ گئے۔ یہ اعداد و شمار مرکزی وزارت قانون کی جانب سے پارلیمنٹ میں بتایا گیا ہے۔ ریاستی اعداد و شمار میں بھی کچھ ریاستوں میں ظلم کے معاملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ اس میں کئی بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں ایس سی-ایس ٹی کے خلاف معاملوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔

اترپردیش میں 2023 میں 15130 معاملے درج کیے گئے، لیکن صرف 4355 کو ہی نمٹایا جا سکا۔ زیر التوا معاملوں کی تعداد 85052 تک پہنچ گئی ہے۔ مدھیہ پردیش میں 8232 معاملے درج ہوئے اور 37533 زیر التوا ہیں۔ راجستھان میں 8449 معاملے درج ہوئے اور 22470 زیر التوا ہیں۔ گجرات میں 1373 معاملے درج ہوئے اور 13629 زیر التوا ہیں۔ اس کے علاوہ اڈیشہ (2696)، کرناٹک (1914)، تمل ناڈو (1919)، تلنگانہ (1709) اور ہریانہ (1539) میں بھی معاملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ حکومت نے واضح کیا کہ ایس سی-ایس ٹی مظالم ایکٹ کے تحت کارروائی کے لیے ذات کا سرٹیفکیٹ لازمی نہیں ہے۔ کئی معاملوں کو تفتیش کے بعد حتمی جھوٹی رپورٹ کی بنیاد پر بند کیا جاتا ہے، لیکن یہ مجموعی معاملوں کے تناسب میں کافی محدود ہے۔


5 سال کے اعداد و شمار سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انسداد مظالم ایکٹ کے تحت معاملوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے، لیکن عدالتوں میں سست رفتاری کے باعث زیر التوا معاملوں کا بوجھ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ایک رکن پارلیمنٹ کے سوال کے تحریری جواب میں وزیر قانون ارجن رام میگھوال نے بتایا کہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے مطابق گزشتہ 5 سالوں میں راجستھان، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر اور گجرات جیسی ریاستوں میں ایس سی-ایس ٹی انسداد مظالم ایکٹ کے تحت ہزاروں معاملے درج ہوئے ہیں۔ یہ تمام اعداد و شمار 2023 تک کے این سی آر بی کے ریکارڈ کی بنیاد پر پارلیمنٹ میں بتایا گیا۔