اتراکھنڈ میں دراڑ نظر آنے کا سلسلہ جاری، نینی تال میں بھی جوشی مٹھ جیسی دراڑیں، ایک سال میں تیسرا سیاحتی مقام بند

نینی تال میں ویو پوائنٹ کے آس پاس دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ شمالی اور جنوبی سروں پر پڑی دراڑیں کاربونیٹ چٹانوں کے پھسلنے سے پیدا ہوئی ہیں۔ سروے ٹیم نے اس کا جائزہ لیا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div>

تصویر سوشل میڈیا

user

قومی آوازبیورو

نینی تال: اتراکھنڈ کے شہروں میں دراڑیں پڑنے کا سلسلہ جاری ہے۔ جوشی مٹھ اور دیگر شہروں کے بعد اب نینی تال ضلع میں بھی دراڑیں پڑ گئی ہیں، جس کی وجہ سے یہاں کے لوگ خوف میں مبتلا ہیں۔ دراڑیں پڑنے سے یہاں کے لوگوں کے سامنے کئی طرح کی مشکلات بھی کھڑی ہو گئی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ٹفن ٹاپ میں دراڑیں نظر آنے کے بعد ضلع انتظامیہ کی ٹیم نے نینی تال کا دورہ کیا۔ دراڑ کے پیش نظر ٹفن ٹاپ پر سیاحوں سمیت مقامی لوگوں کی آمدورفت روک دی گئی ہے۔ ڈی ایم نے یہ فیصلہ ویو پوائنٹ پر لینڈ سلائیڈنگ کے خطرے کے پیش نظر لیا ہے۔ اس سے قبل لینڈ سلائیڈنگ کے خطرے کے پیش نظر بینڈ اسٹینڈ کو بھی سیاحوں کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔


انتظامیہ کے دورے کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ ویو پوائنٹ کے اردگرد دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ شمالی اور جنوبی سروں پر پڑی دراڑیں کاربونیٹ چٹانوں کے پھسلنے سے پیدا ہوئی ہیں۔ سروے ٹیم نے اس کا جائزہ لیا ہے۔ اس کے بعد تجویز دی گئی کہ جب تک جیو ٹیکنیکل سروے مستقل طور پر نہیں ہو جاتا، یہاں پر نقل و حرکت بند رکھی جائے۔

غور طلب ہے کہ ٹفن ٹاپ کی پہاڑی پر تین سال سے مسلسل لینڈ سلائیڈنگ ہو رہی ہے۔ اس سے قبل تشکیل دی گئی سروے ٹیم نے یہاں زیر زمین شگافوں میں اضافے کی تصدیق کی تھی۔ اس ٹیم نے پہاڑی کے پیچھے لینڈ سلائیڈنگ کو خطرناک قرار دیا تھا۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ دو سال سے اس رپورٹ کی بنیاد پر ٹریٹمنٹ منصوبہ نہیں بنایا گیا۔


نینی تال میں لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ ایک سال کے اندر تیسرے سیاحتی مقام کو بند کرنے کا سبب بنا ہے۔ اس سے قبل مالی تال کے بینڈ اسٹینڈ اور ٹھنڈی سڑک پر لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ ٹفن ٹاپ کی بندش سے ایک ہزار سے زائد افراد کا روزگار براہ راست متاثر ہوگا۔

ہر سال ہزاروں سیاح ٹفن ٹاپ دیکھنے آتے ہیں۔ یہاں کی بلندی سے نینی تال اور ہمالیائی خطہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ ٹفن ٹاپ پر آمد و رفت بند ہونے سے جہاں ایک طرف سیاح اسے دیکھنے سے محروم ہو جائیں گے۔ دوسری جانب اس سے وابستہ ایک ہزار سے زائد تاجر براہ راست متاثر ہوں گے۔


ٹفن ٹاپ تک پہنچنے کے لیے سیاح گھوڑے کا استعمال کرتے ہیں۔ 100 سے زیادہ رجسٹرڈ ہارس ہینڈلر یہاں کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ غیر رجسٹرڈ لوگوں کی روزی روٹی بھی یہاں آنے والے سیاحوں پر منحصر ہے۔ ٹفن ٹاپس چھوٹے دکانداروں اور ٹیکسی چلانے والوں کے لیے بھی روزگار کا ذریعہ ہیں۔ ایسے میں ان تمام لوگوں کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔