ایودھیا معاملہ میں عدالت غیر ضروری بیان دینے والوں کا از خود نوٹس لے: ارشد مدنی

بابری مسجد ملکیت مقدمہ کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کہا کہ جنوری 2019 کے پہلے ہفتہ میں سماعت اس بات پر ہوگی کہ مقدمہ کو کس بنچ کے حوالے کیا جائے اور کون سی تاریخ مقرر کی جائے۔

قومی آواز گرافکس
قومی آواز گرافکس
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی : چیف جسٹس رنجن گگوئی کی سربراہی والی سپریم کورٹ کی تین رکنی بنچ نے آج ملک کے انتہائی اہم اور حساس بابری مسجد ملکیت مقدمہ کی سماعت آئندہ جنوری تک کے لئے ملتوی کردی ہے، واضح رہے آج جب چیف جسٹس رنجن گگوئی ، جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس کے ایم جوزف کی بنچ کے سامنے جب یہ مقدمہ پیش ہوا توجمعیۃعلماء ہند کے لیڈ میٹر سول پٹیشن نمبر 10866-10867/2010 (محمد صدیق جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء اتر پردیش)کی طرف سے سینئر ایڈوکیٹ راجورام چندرن ، سینئر ایڈوکیٹ برنداگروور اور وکیل آن ریکارڈ اعجازمقبول پیروی کے لئے پیش ہوئے ، سماعت کا آغاز ہوتے ہی بنچ نے مقدمہ کی سماعت آئندہ جنوری تک کے لئے ملتوی کرنے کا فیصلہ دیا اوریہ بھی کہا کہ جنوری 2019کے پہلے ہفتہ میں سماعت اس بات پرہوگی کہ مقدمہ کو کس بنچ کے حوالہ کیا جائے اور اس کیلئے کون سی تاریخ مقررکی جائے ۔ اس پر اترپردیش حکومت کی طرف سے پیش ہوئے سالسٹر جنرل تشارمہتا نے عدالت سے درخواست کی کہ نومبر میں ہی اس معاملہ پر سماعت کرکے اس بابت ہدایت کردی جائے کہ معاملے کی سماعت کس بنچ میں ہوگی اورکس تاریخ سے ہوگی ، سالسٹرجنرل کی تائید کرتے ہوئے رام للاکے وکیل سی ایس وید ناتھن نے بھی عدالت سے یہی درخواست دہرائی ، لیکن عدالت نے ان کی درخواستوں کو مستردکردیا ۔حالانکہ اترپردیش حکومت عدالت میں پہلے ہی یہ حلف نامہ داخل کرچکی ہے کہ وہ کسی فریق کی حمایت نہیں کرے گی اوریہ کہ اس کا رویہ غیر جانب دارانہ ہوگا اس روسے سالسٹر جنرل کو اس مقدمہ فریق نہیں بنناچاہیے تھا مگر وہ نہ صرف فریق بنے بلکہ عدالت سے معاملہ کی جلد سماعت کی درخواست بھی کرڈالی جس پر عدالت نے کوئی توجہ نہ دی ۔

واضح ہو اپنے سینئر وکلا ء کے تعاون کے لئے عدالت میں ایڈوکیٹ آکرتی چوبے ، ایڈوکیٹ قرۃ العین ، ایڈوکیٹ تانیہ شری ایڈوکیٹ کنورادت سنگھ، ایڈوکیٹ ایشورمہنتے ، ایڈوکیٹ ہام شنی شنکر اور ایڈوکیٹ زین مقبول بھی موجود تھے۔

جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے آج کی قانونی پیش رفت پر اپنے ردعمل کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی عام معاملہ نہیں ہے بلکہ ملک کا انتہائی اہم اور حساس معاملہ ہے ،انہوں نے آج کی قانونی پیش رفت کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس فیصلے کے آنے کہ بعد ان غیر ضروری بیانات کا سلسلہ اب بندہوجائے گا جو ایک طرف جہاں عدلیہ اور قانون کو چیلنچ کرنے والے تھے، وہی اس طرح کے بیانات سے ایک طبقے کی دل آزاری بھی ہورہی تھی ۔

مولانا مدنی نے کہا کہ قانون کی بنیادپر ہی فیصلہ آئے گا اورہم ایسے ہر فیصلہ کا خیر مقدم کریں گے ، انہوں نے اس بات پر گہری تشویش کا اظہارکیا کہ کچھ لوگ عدالت سے باہر اس معاملہ میں غیر ضروری ہی نہیں بلکہ جارحانہ بیان بازی کررہے ہیں یہاں تک کے بعض ذمہ دارلوگ بھی میڈیا پر آکر وہیں مندربنانے کی بات کہہ رہے ہیں ، انہوں نے سوال کیا کہ جب معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے تو پھر اس طرح کی بیان بازی اور اشتعال انگیزی کا کیا جواز ہوسکتا ہے ؟ اس لئے ہم گزارش کریں گے کہ معزز عدالت ازخود اس کا نوٹس لے اور ایسے لوگوں کو متنبہ کرے ، جن کے اول جلول بیانات سے امن واتحادکی فضاء خراب ہوجانے اور معاشرے میں کشیدگی وانتشار پھیل جانے کا شدید خطرہ ہو ۔

مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ اس طرح کے بیان دینے والوں کی غالباً منشاء یہی ہے کہ ملک میں امن واتحاد کی فضاء خراب ہو اورسماجی طورپر فرقہ وارانہ صف بندی قائم ہوجائے انہوں نے مزید کہا کہ ایک محب وطن شہری کی طرح مسلمان صبروتحمل کے ساتھ عدالت کے فیصلہ کاانتظارکررہے ہیں کیونکہ انہیں عدلیہ پر مکمل اعتماد ہے اور اس بات کا یقین بھی ہےکہ معزز عدالت دوسرے معاملوں کی طرح اس اہم مقدمہ میں بھی ثبوت وشواہداورقانون کی بنیادپر ہی فیصلہ دے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 29 Oct 2018, 6:09 PM
/* */