مودی کی الٹی گنتی شروع، معلق ہوگی 2019میں لوک سبھا، سنگھ کے ترجمان اخبار کا دعوی

آر ایس ایس کا خیال ہے کہ 2019 میں ہونے جا رہے لوک سبھا انتخابات میں کسی جماعت کو اکثریت نہیں ملے گی اور لوک سبھا کے معلق ہونے کے آثار ہیں۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

قومی آواز بیورو

فراز احمد کی رپورٹ کا ترجمہ

آر ایس ایس کی اس پیشن گوئی اور لوگوں میں وزیر اعظم کی گرتی مقبولیت کے سبب بی جے پی خیمہ میں خطرے کی گھنٹی بجنے لگی ہے، سنگھ بھی اس خطرے محسوس کرنے لگا ہے۔

آر ایس ایس کے ترجمان اخبار آرگینائیزر نے اپنے تازہ شمارے میں امکانات ظاہر کئے ہیں کہ 2019 کے عام انتخابات میں پارلیمنٹ معلق (ہنگ) رہ سکتی ہے۔ ساتھ ہی سنگھ کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگلے 6 مہینوں میں ملک میں حکومت مفلوج حالات میں حکمرانی چلائے گی یا پھر وہ معذور ہو کر رہ جائے گی۔ سنگھ کا خیال ہے کہ ’’معلق لوک سبھا کے امکان کے پیش نظر غیر مستحکم ماحول پیدا ہوگا اور اس کے قومی سلامتی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘

ابھی حال تک کسی نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ میڈیا نریندر مودی کے وزیر اعظم کے طور پر دن گننے لگے گا۔ ساتھ ہی اس بحث کا بھی کوئی امکان نہیں تھا کہ اگر بی جے پی کو اکثریت مل بھی جائے تو مودی وزیر اعظم نہیں بنیں گے؟

لیکن تین ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس سے براہ راست مقابلہ میں ہارنے کے بعد بی جے پی کے سر پر خطرے کی گھنٹی بجنے لگی ہے۔ سیاسی تجزیہ کار بھی اس بات پر متفق نظر آ رہے ہیں کہ بی جے پی کم از کم 50 اور زیادہ سے زیادہ 100 سیٹوں پر ہار سکتی ہے۔ لیکن ساتھ ہی ان کی یہ بھی دلیل ہے کہ بی جے پی کا جو نقصان ہوگا وہ اپنے نئے گڑھ شمال مشرقی ریاستوں، اوڈیشا اور مغربی بنگال سے پُر کر لے گی۔

اب وہ سیاسی تجزیہ کار بھی حیران رہ گئے ہیں کیوں کہ بی جے پی کے اندر سے اور آر ایس ایس سے ہی ایسی آواز اٹھنے لگی ہیں کہ وزیر اعظم کے لئے نیا امیدوار منتخب کرنا چاہئے۔ حال ہی میں اس سلسلہ میں سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کو ایک خط بھی موصول ہوا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ مودی اور امت شاہ بی جے پی پر بوجھ بن چکے ہیں اور ایسے میں یہی راستہ باقی رہ گیا ہے کہ پارٹی کی کمان نتن گڈکری کو سونپ دی جائے۔ نتن گڈکری ناگپور سے رکن پارلیمنٹ ہیں اور سنگھ کے رہنماؤں سے ان کی نزدیکیاں جگ ظاہر ہیں۔

دریں اثنا نتن گڈکری کے سُر بھی الگ نظر آ رہے ہیں۔ ایک طرف جہاں حکومت وجے مالیہ کی ممکنہ حوالگی سے فائدہ اٹھانے کی ترکیبیں لڑا رہی تھی اسی وقت ایک تقریب سے انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ قرض ادا نہ کرنے والے کو گھوٹالہ باز کہنا صحیح نہیں ہے۔ اتنا ہی نہیں انہوں نے یہ بھی کہا کہ بی جے پی کے کچھ رہنماؤں کو حد سے زیادہ بولنے کی عادت ہو چکی ہے، ایسے لوگوں کو سمجھنا ہوگا کہ زیادہ بولنا اچھا نہیں ہوتا۔ حالانکہ انہوں نے کہا کہ وہ تو مذاق کر رہے تھے لیکن سمجھنے والے سمجھ گئے کہ ان کا اشارہ کس کی جانب تھا۔

اسی منگل یعنی 18 دسمبر کو بی جے پی کی پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ میں کئی بی جے پی ارکان پارلیمنٹ اٹھ کھڑے ہوئے اور حکومت سے ایودھیا میں اسی مقام پر مندر تعمیر پر سوال پوچھ ڈالا۔ حالانکہ اس میٹنگ میں نہ تو وزیر اعظم مودی موجود تھے اور نہ ہی پارٹی کے صدر امت شاہ، لیکن شاہ اس کے بعد منعقدہ ایک تقریب میں ان ارکان پارلیمنٹ کی بات کی حمایت کرتے نظر آئے۔

یہ بات ابھی تک لوگ بھولے نہیں ہوں گے کہ نومبر 2016 میں جب نتن گڈکری نے وزیر اعظم سے سوال پوچھا تھا تو ان کا سوال مکمل ہونے سے پہلے ہی انہیں بیٹھا دیا گیا تھا۔

اس طرح بی جے پی ارکان پارلیمنٹ کی بے چینی اب منظر عام پر آنے لگی ہے۔ یہاں تک کہ آر ایس ایس نے بھی اشارے دینے شروع کر دئے ہیں کہ صرف رام مندر ہی جیت کے لئے واحد تروپ کا اکا باقی رہ گیا ہے۔ اسی سال اکتوبر میں دسہرہ کے موقع پر تقریر کے دوران سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے صاف کہا تھا کہ رام مندر کی تعمیر ہی ’ہندو گورو‘ بحال کر سکتی ہے اور بی جے پی ووٹ بٹور سکتی ہے۔

یہ خبر بھی منظر عام پر آئی ہے کہ 2014 کے دوران مودی کے لئے تشہیر کرتے ہوئے جن کشور تیواری نے ’چائے پے چرچہ‘ پروگرام شروع کیا تھا انہوں نے ہی سنگھ کو خط لکھ کر مودی کو ہٹانے کا مطالب کیا ہے۔ ساتھ ہی 2019 کے لئے نتن گڈکری کو چہرہ بنائے جانے کی کزارش کی ہے۔

تیواری کو معمولی بی جے پی کارکن نہیں ہیں۔ وہ مہاراشٹر کی زرعی ورکنگ کمیٹی وسنت راؤ نائیک شیٹی خود مختاری مشن کے صدر ہیں اور خود کو سنگھ پرچارک اور بی جے پی رہنما کا بیٹا قرار دیتے ہیں۔ تیواری نے مودی-شاہ کی قیادت کو آمریت سے ُپر قرار دیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ سنگھ کے سربراہ پارٹی کی باگڈور نتن گڈکری کے ہاتھ میں دے دیں تاکہ عام لوگوں کے لئے خوف سے پاک ماحول بن سکے۔

ادھر بی جے پی میں ہڑبڑی صاف نظر آ رہی ہے۔ حال ہی میں اسمبلی انتخابات کے دوران بی جے پی کے لئے مدھیہ پردیش کے ویدیشا میں تشہیر کے لئے گئی وزیر خارجہ سشما سوراج نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ اگلا لوک سبھا چناؤ نہیں لڑیں گی، لیکن سیاست میں فعال رہیں گی۔ غورطلب ہے کہ سشما سوراج عمر میں وزیر اعظم مودی سے چھوٹی ہیں، ایسے حالات میں معاملہ صرف عمر کا نہیں ہے۔ وہیں، مرکزی وزیر اوما بھارتی بھی چناؤ نہ لڑنے کا اعلان کر چکی ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جس طرح کے حالات این ڈی اے اور بی جے پی میں پیدا ہو گئے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی میں اندرونی بغاوت ابھی اور تیز ہوگی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 20 Dec 2018, 10:04 PM