تھانیدار صاحب، ہماری گائے آپ رکھئے ورنہ ہم مارے جائیں گے!

میرٹھ میونسپل کارپوریشن کے کونسلر عبد الغفار گائے کے نام پر ہو رہے تشدد کے واقعات سے اتنے پریشان ہو گئے کہ انہوں نے اپنی گائے تھانے میں جاکر پولس کو سونپ دی ہے۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

آس محمد کیف

میرٹھ: شہر کے نوچندی تھانےعلاقہ میں گائے کے نام پر ہو رہے تشدد نے کونسلر عبدالغفار کو اتنا پریشان کر دیا کہ وہ اپنی پالی ہوئی گائے کو تھانے لے کر پہنچ گئے اور کہا کہ ’’اسے آپ رکھئے ورنہ ہم مارے جائیں گے۔ ‘‘

عبد الغفار کا کہنا ہے کہ ’’گائے اب خطرناک جانور بن چکی ہے اور مسلمانوں کے لئے اب اسے پالنا ممکن نہیں رہ گیا ہے۔ اس لئے میں اسے تھانے لے کر گیا۔‘‘

عبدالغفار نے اس حوالے سے ایک تحریری درخواست پولس کو دی ، پولس نے گائے اپنے پاس رکھ لی اور ریسیونگ کاپی بھی عبدالغفار کو سونپ دی ۔ دراصل ایک روز قبل نوچندی تھانا علاقہ کے دو مسلمانوں کے ساتھ گائے کے نام پر تشدد ہوا تھا، اسی کی وجہ سے وہ پریشان اور خوفزدہ ہیں۔

نوچندی تھانا انچارج سنجے کمار نے ’قومی آواز‘ کو بتایا کہ ’’عبد الغفار تھانا نوچندی علاقہ میں آنے والے زیدی فارم کے کونسلر ہیں اور بی ایس پی کے رہنما ہیں۔ وہ اپنی گائے لے کر تھانے آئے تھے ۔ ان کا کہنا ہے کہ گائے پالنے میں انہیں اب ڈر لگتا ہے۔ ‘‘ عبد الغفار نے ’قومی آواز‘ کو بتایا کہ اس نے بچھیا اپنے ایک رشتہ دار سے لی تھی اور اس کی بڑے پیار سے پرورش کی تھی لیکن اب وہ اسے نہیں رکھنا چاہتے۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز

ذاکر کالونی کے رہائشی محمد انس اور عبد العزیز دودھ بیچنے کا کام کرتے ہیں ، وہ دونون 15 جنوری کو جاگرتی وہار کے رہنے والے منو سنگھ سے دو گائیں خرید کر اپنی ڈیری فارم تک لا رہے تھے۔ ان کے پاس گایوں کو خریدنے کی رسید تو تھی لیکن راستہ میں انہیں کوئی پریشان نہ کرے اس لئے وہ منو سنگھ کو بھی ساتھ لے کر آئے تھے۔ اس کے باوجود ہندو تنظیموں سے وابستہ افراد نے دونوں کوروک لیا۔ انہوں نے لاکھ صفائیاں دیں کہ گائیں دودھ کے لئے خریدی گئی ہیں، رسید بھی دکھائی پھر بھی شرپسندوں نے ایک نہ سنی اور دونوں کو خوب مارا پیٹا۔

عبد الغفار اس وقعہ کے بارے میں کہتے ہیں ’’ انس اور عبدالعزیز کو مارا پیٹا گیا، ان سے گائیں چھین لی گئیں اور اس کے بعد پولس نے بھی انہیں کو پکڑا! بس میرے سمجھ میں آ گیا کہ گائے بہت خطرناک جانور ہے اور اس کی وجہ سے میری جان بھی جا سکتی ہے اس لئے میں نے اپنی گائے کو پولس کے سپرد کر دیا۔‘‘

عبدالغفار نے کہا ’’ مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ میں گائے کو گوشالا تک لے کر جاؤں ۔ میرے نزدیک تھانا تھا اس لئے وہیں گائے پہنچا دی ، اب پولس چاہے اسے ہندو تنظیموں کو دے یا گوشالا پہنچائے لیکن میں اسے نہیں پال سکتا۔ ‘‘

زیدی فارم رہائشی ضیاء الرحمن ،عبدالغفار کے قد م کی حمایت کرتے ہوئے کہتے ہیں’’ ہندو تنظیموں کی طرف سے مسلمان لڑکوں کے ساتھ مار پیٹ کی گئی جس کے بعد علاقہ میں کشیدگی پھیل گئی اس لئے عبدالغفار نے صحیح کیا کہ گائے پولس کو سونپ دی۔ ‘‘

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز

شہر قاضی زین الساجدین کا کہنا ہے ’’ملک کی یہ صورت حال شرم ناک ہے۔ لوگوں کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت پر ہے لیکن وہ اپنی ذمہ داری کو نہیں نبھا رہی ۔ ‘‘ بی جے پی حکومت میں گائے کے نام پر متعدد تشدد کے واقعات سامنے آ چکے ہیں۔ ہریانہ اور راجستھان کے میوات علاقہ میں بھی تشدد کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں ، وہاں ایک تحریک بھی چلائی گئی جس کو ’ہر کھونٹے سے کھولو گائے‘ کا نا م دیا گیا ہے۔ لیکن جس طرح میرٹھ کے کونسلر عبدالغفار نے اپنی گائے پولس کو لے جاکر سونپ دی اورجس طرح حکومت اترپردیش کو احساس دلا نے کی کوشش کی ہے وہ اپنے آپ میں ایک مثالی قدم ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 17 Jan 2018, 4:22 PM