کف سیرپ سے اموات: سپریم کورٹ سے سی بی آئی جانچ کی مانگ نامنظور، ریاستوں کو تحقیقات کی اہل قرار دیا
سپریم کورٹ نے کف سیرپ سے بچوں کی اموات پر سی بی آئی یا قومی کمیشن سے جانچ کی مانگ مسترد کر دی۔ عدالت نے کہا کہ ریاستی حکومتیں خود کارروائی کرنے میں اہل ہیں اور ہر معاملے میں عدالتی نگرانی ضروری نہیں

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے مدھیہ پردیش اور راجستھان میں کف سیرپ پینے سے کئی بچوں کی موت کے معاملے میں سی بی آئی جانچ کی مانگ والی عرضی کو خارج کر دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے واضح کیا کہ اس نوعیت کے معاملات میں ریاستی حکومتیں خود جانچ کرنے کی اہل ہیں اور ہر معاملے میں سپریم کورٹ سے نگرانی کی مانگ کرنا عدالتی نظام پر عدم اعتماد کے مترادف ہے۔
یہ مفاد عامہ کی عرضی وکیل وشال تیواری نے دائر کی تھی، جس میں انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ بچوں کی اموات کے ان معاملات کی جانچ کسی قومی عدالتی کمیشن یا ماہرین کی کمیٹی سے کرائی جائے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ گزارش بھی کی تھی کہ اس جانچ کی نگرانی سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کریں تاکہ کارروائی غیر جانب دار اور شفاف ہو سکے۔
عرضی میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ملک میں وقتاً فوقتاً کف سیرپ یا دیگر دواؤں کے استعمال سے بچوں کی موت کی خبریں آتی رہتی ہیں لیکن اس پر کوئی مضبوط اور منظم کارروائی نہیں ہوتی۔ انہوں نے عدالت سے اپیل کی تھی کہ مارکیٹ میں فروخت ہونے والی ہر دوا کے لیے سخت ٹیسٹنگ اور ویریفکیشن کا عمل لازمی قرار دیا جائے۔
وشال تیواری نے اپنی عرضی میں یہ بھی دلیل دی تھی کہ دواؤں میں استعمال ہونے والے خطرناک کیمیکلز جیسے ڈائی ایتھیلین گلائکول اور ایتھیلین گلائکول کی فروخت اور نگرانی کے لیے سخت قوانین بنائے جائیں تاکہ مستقبل میں اس طرح کے سانحے دوبارہ پیش نہ آئیں۔ اس کے علاوہ، انہوں نے متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ دینے اور تمام ریاستوں میں درج ایف آئی آرز کو یکجا کر کے ایک ہی تفتیشی ایجنسی کے تحت مشترکہ جانچ کرانے کی سفارش کی تھی۔
انہوں نے عدالت سے یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ زہریلا کف سیرپ بنانے والی کمپنیوں کے لائسنس فوراً منسوخ کیے جائیں اور ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔
دوسری طرف، سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے اس عرضی کی سخت مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ ریاستی حکومتوں کے دائرہ کار میں آتا ہے اور وہ خود جانچ کرنے میں مکمل طور پر اہل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہر واقعے میں سپریم کورٹ سے مداخلت کی امید کی جائے تو یہ ریاستی حکومتوں کی خود مختاری پر عدم اعتماد ظاہر کرنے کے مترادف ہوگا۔
انہوں نے عرضی گزار وشال تیواری کی نیت پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ ’’یہ جہاں بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے، بس اخبار پڑھ کر پی آئی ایل داخل کر دیتے ہیں۔‘‘ اس پر چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے پوچھا کہ اب تک آپ نے کتنی پی آئی ایل داخل کی ہیں؟ تیواری نے جواب دیا کہ آٹھ یا دس۔
عدالت نے سماعت مکمل کرنے کے بعد بغیر کوئی تفصیلی تبصرہ کیے یہ کہتے ہوئے عرضی خارج کر دی کہ ریاستی حکومتیں ان معاملات میں خود کارروائی کرنے کے لیے پوری طرح اہل ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔