دہلی: گاندھی نگر جینس مارکیٹ میں چھائی ویرانی، خریدار ندارد

گاندھی نگر جینس مارکیٹ کا کاروبار پوری طرح سے کورونا بحران اور لاک ڈاؤن کی نذر ہو گیا۔ حالت یہ ہے کہ دکاندار کرایہ بھی نہیں نکال پا رہے ہیں۔ کئی دکاندار دکان خالی کرنے کے لیے مجبور ہو گئے۔

گاندھی نگر جینس مارکیٹ میں چھائی ویرانی
گاندھی نگر جینس مارکیٹ میں چھائی ویرانی
user

محمد تسلیم

مشرقی دہلی واقع گاندھی نگر جینس مارکیٹ کا شمار ایشیا کی سب بڑی ریڈی میڈ گارمینٹ ہول سیل مارکیٹ میں ہوتا ہے، لیکن کورونا بحران میں اس عالی شان مارکیٹ کے دکانداروں کو زبردست معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گاندھی نگر جینس مارکیٹ کی جن گلیوں سے عام دنوں میں رکشہ نکلنا بھی مشکل ہوتا تھا اور ٹھیک سے پیر رکھنے کی جگہ تک نہیں ہوتی تھی، آج وہاں موٹر کار آسانی سے نکل جاتی ہے۔ لاک ڈاؤن ہونے کی وجہ سے مارکیٹ میں تاجروں کا فقدان دیکھنے کو مل رہا ہے اور مارکیٹ کے دکانداروں کے لئے اس وبائی دور میں تجارت کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔ اس بابت قومی آواز کے نمائندہ نے گاندھی نگر مارکیٹ کا دورہ کر دکانداروں سے بات کی۔ گلی مہاویر کے دکاندار محمد فرمان کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے سبب کاروبار کر پانا بہت مشکل ہو رہا ہے۔ لاک ڈاؤن میں کاریگروں کا بڑا طبقہ بے روزگار ہو کر اپنے اپنے وطن چلا گیا ہے جس کی وجہ سے اَن لاک کا عمل شروع ہونے کے باوجود جینس کے کارخانوں میں اب بھی تالے لگے ہوئے ہیں۔ جب تک کاریگر اپنے گاؤں سے واپس نہیں آئیں گے تب تک کاروباری سرگرمیوں کی بحالی ممکن نہیں ہے۔

سنسان پڑی گاندھی نگر جینس مارکیٹ کی ایک گلی
سنسان پڑی گاندھی نگر جینس مارکیٹ کی ایک گلی
تصویر محمد تسلیم

محمد فرمان نے تاجروں کے سامنے پیدا مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ گاندھی نگر مارکیٹ میں ہریانہ، پنجاب، راجستھان، بہار و دیگر ریاستوں سے تاجر آتے تھے۔ اب جبکہ ٹرانسپورٹیشن نظام میں کئی طرح کی تبدیلیاں ہو گئی ہیں تو تاجروں کو بھی پریشانیاں ہو رہی ہیں اور مارکیٹ میں ہول سیل گاہکوں کی بھی کمی ہے۔

مارکیٹ میں موجود ایک پرانے دکاندار عبدالواجد سے جب موجودہ ماحول کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ "لوگوں میں کورونا وائرس کا خوف بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے وہ سفر کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔" انھوں نے مزید کہا کہ "حکومت نے اسکول و کالج بند کر رکھے ہیں، شادیوں و پارٹیوں اور دیگر تقریبات میں محدود افراد ہی شامل ہوسکتے ہیں، ایسے حالات میں کپڑے کون خریدے گا۔" اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "جس طرح مارکیٹ میں تاجروں کا فقدان ہے ٹھیک ویسے ہی کارخانوں میں کاریگر نہیں ہیں۔ مالکان کو پہلے کی طرح آرڈر بھی نہیں مل پا رہے ہیں، اور جو آرڈر مل بھی رہے ہیں تو جینس پینٹ کی واشنگ سے لے کر پریس و پیکنگ کے ریٹ میں اضافہ ہونے کی وجہ سے جینس اب اضافی قیمت میں تیار ہو رہی ہے۔ جب کہ تاجر اسے پرانی قیمت میں لینے کے خواہشمند ہیں۔" عبدالواجد کہتے ہیں کہ جینس کا کاروبار کرنے والوں کے لئے ایک اہم مسئلہ جو در پیش ہے وہ ہے دکان کا کرایہ۔ خریداروں کی عدم موجودگی میں دکان کا کرایہ تک نکالنا دکانداروں کے لیے مشکل ہو رہا ہے۔

گاندھی نگر جینس مارکیٹ میں خریداروں کا انتظار کرتے دکاندار
گاندھی نگر جینس مارکیٹ میں خریداروں کا انتظار کرتے دکاندار
تصویر محمد تسلیم

گلی دُرگا والی میں انیس نامی دکاندار طویل مدت سے کاروبار کر رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ حکومت کے اچانک لاک ڈاؤن کے فیصلہ نے ہمیں اس تذبذب میں مبتلا کر دیا ہے کہ مستقبل میں ہم کاروبار کیسے کریں گے۔ جن کی مارکیٹ میں اپنی دکانیں ہیں ان کو تو صرف بجلی کا بل اور دوسرے اخراجات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، نیز جن کی کرایہ کی دکانیں ہیں ان کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ "میری دکان 20000 روپے ماہانہ کرایہ پر تھی جس میں چار ہیلپرز کام کرتے تھے۔ لاک ڈاؤن ہونے کے بعد میں نے ان کو دو ماہ تک گھر بیٹھے تنخواہ دی، لیکن جب میری بھی جیب خالی ہونے لگی تو میں نے دکان خالی کرنے کا فیصلہ لیا۔ حالانکہ جو دکان کا مالک ہے اس نے 3 ماہ کا کرایہ معاف کر دیا ہے، لیکن کچھ دکان مالکان نے صرف نصف کرایہ ہی معاف کیا ہے۔" وہ مزید بتاتے ہیں کہ "ان لاک 2.0 میں مارکیٹ کھلنے کے باوجود خریدار ندارد ہیں اور دکاندار سخت پریشان ہیں۔ اب بھی دکانداروں کے لیے کرایہ نکالنا مشکل ہو رہا ہے۔"

دہلی: گاندھی نگر جینس مارکیٹ میں چھائی ویرانی، خریدار ندارد
تصویر محمد تسلیم

واضح رہے کہ گاندھی نگر میں جو جینس پینٹ دستیاب ہیں وہ شمال مشرقی دہلی کے علاقہ ویلکم، جنتا کالونی، جعفرآباد میں تیار ہوتی ہیں۔ ان علاقوں میں موجود کارخانوں میں یو پی،بہار، بنگال کے کاریگر کام کرتے ہیں۔ لاک ڈاؤن میں کاریگر گھر واپس چلے گئے اور اب کاریگر طبقہ اس لئے بھی دہلی کا رخ نہیں کر رہاکیونکہ ان کو خوف ہے کہ لاک ڈاؤن دوبارہ لگایا گیا تو ان کے لیے مشکلات کھڑی ہو جائیں گی۔ تاہم مزدوروں کو جس طرح لاک ڈاؤن میں دہلی چھوڑنے کے لیے مجبور کیا گیا، اس کا اثر اب دہلی کے بازاروں اور منڈیوں میں صاف نظر آرہاہے۔ دہلی میں صرف 40 فیصد ہی مزدور اور کاریگر رہ گئے ہیں۔ جینس کے کاروبار سے جڑے کمپیوٹر کڑھائی کرنے والوں کی بھی حالت خستہ ہے۔ سلمان نامی کارخندار نے بتایا کہ 24 مارچ سے اب تک ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہیں۔ پہلے نوٹ بندی، پھر جی ایس ٹی اور اب کورونا وائرس نے تو ہمارا گلا ہی گھونٹ دیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 08 Jul 2020, 10:11 PM
/* */