کورونا وائرس: چین کا امریکہ پر سنگین الزام، لفظی جنگ میں شدت

ٹوئٹر پر چینی سفارتخانہ نے سوال اٹھا یا کہ ’’گزشتہ برس ستمبر (امریکہ) میں شروع ہونے والے فلو کی وجہ سے 20 ہزار اموات میں کتنے مریض کورونا وائرس کے تھے؟“

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

واشنگٹن/بیجنگ: امریکہ اور چین کے درمیان کورونا وائرس کے حوالہ سے الزام تراشیوں کا سلسلہ شدت اختیار کرگیا۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کورونا کو ’چینی وائرس‘ قرار دینے پر فرانس میں چین کے سفارتخانہ نے کہا کہ دراصل یہ وائرس امریکہ سے شروع ہوا۔

ٹوئٹر پر چینی سفارتخانہ نے سوال اٹھا یا کہ ’’گزشتہ برس ستمبر (امریکہ) میں شروع ہونے والے فلو کی وجہ سے 20 ہزار اموات میں کتنے مریض کورونا وائرس کے تھے؟“ چینی سفارتخانہ نے مزید کہا کہ کیا امریکہ نے نمونیہ کے کیسز کو (وائرس) بطور فلو کی وجہ سے پاس کرنے کی کوشش نہیں کی؟ تاہم فرانس میں چینی سفارتخانے نے اپنے موقف میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیے۔


فرانس میں چینی سفارت خانہ نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ’’امریکہ نے گزشتہ جولائی میں اپنے سب سے بڑے بائیو کیمیکل ہتھیار کی ریسرچ لیب سینٹر کو اچانک کیوں بند کیا جو کہ میری لینڈ میں فورٹ ڈیٹرک اڈے پر واقع ہے“۔

چینی سفارتخانہ نے کہا کہ ’’ریسرچ لیب کی بندش کے بعد نمونیہ یا اس سے ملتے جلتے معاملات کا ایک سلسلہ امریکہ میں شروع ہوا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے سکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے متعدد مرتبہ ’چینی وائرس‘ کا حوالہ دے کر بیجنگ پر غصے کا اظہار کیا تھا۔


واضح رہے کہ یہ عام تصور لوگوں میں موجود ہے کہ کورونا وائرس کی ابتدا چین کے شہر ووہان سے ہوئی۔ اس کے بعد سے یہ وائرس دنیا بھر میں پھیل چکا ہے جس کی وجہ سے حکومتیں اس وبا کو روکنے کے لئے لاک ڈاؤن کر رہی ہیں۔ اس سے قبل اتوار کے روز امریکی صدر نے کہا تھا کہ وہ چین سے ’تھوڑا سا پریشان‘ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’انہیں ہمیں (وائرس) کے بارے میں بتانا چاہیے تھا‘۔

رواں ماہ کے شروع میں بیجنگ میں وزارت خارجہ کے ترجمان زاؤ لیجیان نے اپنے ایک ٹوئٹ میں الزام لگایا تھا کہ امریکی فوج وائرس ووہان لائی تھی۔ اس کے جواب میں امریکہ نے چین کے سفیر کو طلب کیا اور الزام لگایا تھا کہ چین ”سازش کے نظریات کو پھیلانے“ اور ’عالمی وبائی بیماری شروع کرنے، دنیا کو نہ بتانے اور اپنے کردار پر تنقید کا رخ موڑنے کی کوشش کر رہا ہے“۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔