لاک ڈاؤن: دہلی میں فرضی ای-پاس بنائے جانے کا انکشاف، حرکت میں آئی پولس

دہلی کے روہنی میں کمپیوٹر پاس ورڈ ہیک کر کے ای-پاس تھوک کی تعداد میں جاری کر دیے گئے۔ جمعہ کو معاملے کا پتہ چلنے کے بعد کنجھاولا پولس نے کیس درج کر کے جانچ شروع کر دی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

دہلی واقع روہنی ضلع کے کنجھاولا تھانہ حلقہ میں ڈپٹی کمشنر دفتر میں فرضی ای-پاس بنانے سے متعلق گھوٹالہ کا معاملہس امنے آیا ہے۔ پتہ چلا ہے کہ بڑی تعداد میں یہاں کمپیوٹر پاس ورڈ ہیک کر کے ای-پاس تھوک کی تعداد میں جاری کر دیے گئے۔ معاملہ کا انکشاف جمعہ کے روز ہوا۔ فی الحال اس معاملے میں کنجھاولا پولس نے کیس درج کر کے جانچ شروع کر دی ہے۔ شکایت خود ڈی سی پی دفتر کے ایک ایس ڈی ایم کے ذریعہ درج کرائی گئی ہے۔

واقعہ کی تصدیق ایک پولس افسر نے کی ہے۔ اس افسر کے مطابق ایس ڈی ایم کنجھاولا نے اس فرضی واڑے کی تحریری ایف آئی آر تھانے میں درج کرائی ہے۔ اس معاملے کی جانچ شروع کر دی گئی ہے۔ پولس کے مطابق جانچ کے بعد ہی اس تعلق سے کچھ تفصیل میں بتایا جا سکے گا۔ اندیشہ اس بات کا بھی ہے کہ اس میں کہیں ڈپٹی کمشنر دفتر کے ہی کسی اہلکار کا ہاتھ نہ ہو۔


ذرائع کے مطابق اب تک ہوئی جانچ میں اس بات کا اشارہ مل رہا ہے کہ شاید کمپیوٹر لاگ اِن آئی ڈی اور پاس ورڈ میں چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔ ای-پاس گھوٹالہ کی خبر پہلے ڈپٹی کمشنر دفتر میں ہی کچھ اعلیٰ افسران کو لگی تھی۔ بہر حال، پولس نے کنجھاولا تھانہ میں آئی ٹی ایکٹ کے تحت کیس درج کیا ہے۔

اس گھوٹالہ کے بارے میں اب تک جن بھی اہلکاروں سے پوچھ گچھ کی گئی ہے، ان سے کوئی ٹھوس جانکاری نہیں ملی ہے۔ اتنا ضرور بتایا جا رہا ہے کہ گھوٹالہ کی شروعات 16 مئی سے ہوئی تھی۔ ڈپٹی کمشنر دفتر کو شک تب ہوا جب اچانک یہاں سے ای-پاس جاری ہونے کی تعداد میں اضافہ ہو گیا جب کہ پورے لاک ڈاؤن میں ایک ساتھ ایک دن میں اتنی بڑی تعداد میں ای-پاس کبھی جاری نہیں ہوئے تھے۔


گھوٹالہ کی تصدیق ضلع ڈی سی پی پرمود کمار مشرا نے بھی کی ہے۔ ان کے مطابق جانچ کی جا رہی ہے اس کے مکمل ہونے کے بعد ہی کچھ کہا جا سکتا ہے۔ پولس کے مطابق اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر دفتر میں تعینات کئی اہلکاروں کو پوچھ تاچھ میں شامل ہونے کو کہا گیا ہے۔ ان سب کو باقاعدہ نوٹس جاری کر کے تھانہ بلایا گیا ہے۔

شکایت کے مطابق آن لائن ای-پاس سرکاری ویب سائٹ پر جو درخواست کیے گئے تھے، انھیں افسر کی اجازت کے لیے لاگ اِن پاس ورڈ کاپی کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی اچانک ای-پاس بننے کی تعداد میں اچانک اضافہ محسوس کیا گیا۔ یہ ای-پاس سنٹر دن رات کھلا رہتا تھا تاکہ ہر وقت ای-پاس جاری کیے جا سکیں۔ پاس ورڈ بھی کچھ ذمہ دار اہلکاروں کے پاس ہی تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔