یو پی میں صحافیوں کا دشمن بنا کورونا، علاج کی کمی سے اب تک 13 نے توڑا دَم

اتر پردیش کی راجدھانی لکھنؤ میں کورونا وائرس سے کہرام برپا ہے۔ مرگھٹیں مردوں سے بھری ہوئی ہیں۔ ہر طرف مایوسی کا ماحول ہے۔ کورونا کے اس قہر نے اب تک 13 صحافی کو نگل لیا ہے۔

تصویر بذریعہ آس محمد کیف
تصویر بذریعہ آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

اتر پردیش کی راجدھانی لکھنؤ میں کورونا وائرس سے کہرام برپا ہے۔ مرگھٹیں مردوں سے بھری ہوئی ہیں۔ ہر طرف مایوسی کا ماحول ہے۔ کورونا کے اس قہر نے اب تک 13 صحافی کو نگل لیا ہے۔ ملک کے کئی بڑے نام والے صحافی کی زندگی ختم ہو گئی ہے۔ ہر دن ایک منحوس خبر کلیجے کو چھلنی کر جاتی ہے۔ منگل کو دو صحافی محمد وسیم اور منیش کی موت ہوئی تھی، تو آج صبح بھی ایک صحافی کی موت ہو گئی۔ اس کے علاوہ کئی صحافیوں کے اہل خانہ کو بھی کورونا نے چھین لیا ہے۔ ان میں ونے شریواستو کی موت بھی ایسی ہی ایک موت ہے۔ انھوں نے سوشل میڈیا پر مدد کی گہار لگائی تھی۔

لکھنؤ کے وکاس نگر میں رہنے والے آزاد صحافی 65 سالہ ونے شریواستو کورونا متاثر تھے۔ ان کا آکسیجن لیول لگاتار کم ہوتے ہوتے 52 پر پہنچ گیا تھا۔ انھوں نے یوگی آدتیہ ناتھ کو ٹوئٹ کر کے مدد مانگی کیونکہ کوئی اسپتال اور ڈاکٹر ان کا فون نہیں اٹھا رہے تھے۔ ان کے بیٹے ہرشت شریواستو انھیں لے کر لکھنؤ کے کئی اسپتال گئے، لیکن انھیں ایڈمٹ نہیں کیا گیا۔ وزیر اعلیٰ سے گزارش کرنے کے باوجود کوئی مدد ان تک نہیں پہنچی۔ حالانکہ وزیر اعلیٰ کے اطلاعاتی مشیر نے مدد پہنچانے کا وعدہ کیا، لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ اسپتال کی کمی میں ونے شریواستو کی موت ہو چکی تھی۔ صحافی ونے شریواستو کی زندگی سرکاری بدانتظامیوں کی بھینٹ چڑھ گئی۔ ونے شریواستو کا شمار لکھنؤ اور ملک کے سینئر صحافیوں میں ہوتا تھا۔


پائنیر اخبار کے پالٹیکل ایڈیٹر تاویشی شریواستو کی موت بھی کورونا سے 18 اپریل کو ہوئی۔ تاویشی شریواستو بھی صحیح وقت پر علاج نہ مل پانے کے سبب چلی گئیں۔ تاویشی گھر پر ایمبولنس کا انتظار کرتی رہ گئیں اور جب ایمبولنس پہنچی تو اس وقت تک وہ دنیا کو الوداع کہہ چکی تھیں۔ ان کی موت سے کچھ گھنٹے پہلے ہی ایک صحافی ساتھی سے تاویشی نے کہا تھا ’مجھے مرنے سے بچا لو‘۔ تاویشی لکھنؤ کی ایک مشہور صحافی تھی۔ ان کے والد پروفیسر کالی پرساد لکھنؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے اور محکمہ فلسفہ کے چیئرمین بھی تھے۔ کورونا پازیٹو تاویشی شریواستو کو اتر پردیش کا تقریباً ہر وزیر اعلیٰ جانتا اور پہچانتا تھا، اس کے ساتھ ہی ان کی نوکرشاہی میں اچھی پکڑ تھی۔ لیکن آخر میں کوئی پہچان ان کے کام نہ آیا۔

لکھنؤ کے سینئر صحافی ہمانشو جوشی بھی کورونا انفیکشن سے موت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ہمانشو جوشی کا انتقال 16 اپریل کو ٹی ایس مشرا اسپتال میں علاج کے دوران ہوا۔ وہ گزشتہ دنوں کورونا سے متاثر ہوئے تھے اور ان کا علاج شروع ہو گیا تھا۔ ہمانشو جوشی لکھنؤ کے ایک سینئر صحافی تھے، ساتھ ہی وہ یو این آئی لکھنؤ کے بیورو چیف بھی رہ چکے تھے۔

یہی نہیں، صرف 35 سال کے انکل شکلا کی بھی موت کورونا سے ہو گئی۔ انکت رپورٹر کے طور پر ’دینک جاگرن‘ میں قانونی معاملوں کو کور کرتے تھے۔ کچھ دن پہلے انکت کی طبیعت خراب ہونے کے سبب لوہیا اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا، پھر انھیں کووڈ کے علاج کے لیے اسپیشل وارڈ میں منتقل کر دیا گیا تھا، جہاں علاج کے دوران انکت کا انتقال ہو گیا۔ انکت کی فیملی میں بیوی اور ایک بیٹی ہے اور ان کی بیوی بھی کووڈ پازیٹو ہیں۔ انکت ایک زندہ دل اور جوش سے لبریز انسان تھے۔

لکھنؤ کے سینئر صحافی اور اتر پردیش ہیڈکوارٹر منظور شدہ پریس کمیٹی کے نومنتخب ورکنگ کمیٹی رکن پرمود شریواستو بھی کورونا انفیکشن کی زد میں آ کر موت کا شکار بن گئے۔ پرمود شریواستو کا علاج کے جی ایم یو میں چل رہا تھا، جہاں علاج کے دوران 27 مارچ کو ان کی موت ہوئی۔ پرمود شریواستو 48 سال کے تھے۔ پرمود شریواستو کو 25 مارچ کو سنگین حالت میں کے جی ایم یو میں داخل کروایا گیا تھا، جہاں ان کی علاج کے دوران موت ہو گئی۔ پرمود شریواستو گزشتہ 25 سالوں سے مختلف اخبارات میں کام کرتے رہے۔


کورونا نے اب تک یو پی کے درجنوں صحافیوں کو نگل لیا ہے۔ لکھنؤ ’امر اجالا‘ کے صحافی درگا پرساد شکلا کا بھی کورونا وائرس انفیکشن سے انتقال ہوا۔ درگا پرساد شکلا بخشی کا تالاب علاقہ سے امر اجالا کے نامہ نگار تھے۔ درگا پرساد کئی دنوں سے بخار اور سانس لینے میں تکلیف سے نبرد آزما رہے تھے۔ ان کی موت ان کی رہائش پر ہی ہوئی۔ درگا پرساد کی فیملی میں بیوی اور دو لڑکے ہیں۔ درگا پرساد شکلا گزشتہ تین دہائیوں سے مختلف اخباروں میں کام کرتے رہے۔

لکھنؤ کے سینئر صحافی سچدانند گپتا ’سچّے‘ کا بھی کورونا وائرس انفیکشن کے سبب 14 اپریل کو انتقال ہو گیا۔ سچدانند سچے کا انتقال کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے دو دن بعد ہی انتقال ہو گیا تھا۔ وہ ’جدید عمل‘ اخبار کے ایڈیٹر تھے۔

لکھنؤ کے علاوہ ’ہندوستان‘ کے آگرہ ایڈیشن میں کام کر رہے 50 سالہ صحافی برجیندر پٹیل کا 19 اپریل کو کورونا سے انتقال ہو گیا۔ طبیعت خراب ہونے پر برجیندر پٹیل نے کووڈ جانچ کروائی تھی جو پازیٹو آئی تھی۔ آگرہ کے ایس این اسپتال میں داخل کروایا گیا تھا، جہاں علاج کے دوران برجیندر کی موت ہو گئی۔ وہ کانپور کے رہنے والے تھے۔ تقریباً دو سال سے وہ آگرہ کے ہندوستان میں اپنی خدمات دے رہے تھے۔ برجیندر پٹیل تقریباً 25 سالوں سے صحافی دنیا سے جڑے تھے۔ دینک جاگرن، امر اجالا، راشٹریہ سہارا سمیت کئی میڈیا اداروں میں اپنی خدمات دے چکے تھے۔

کوشامبی میں بھی 38 سالہ صحافی شیونندن ساہو کی بھی کورونا سے موت ہو گئی۔ شیونندن ساہو کی موت 10 اپریل کو ہوئی۔ بخار اور سانس میں تکلیف ہونے پر شیونندن ساہو کو کوشامبی کے ایس آر این اسپتال میں داخل کروایا گیا تھا، لیکن ان کی حالت بگڑتی چلی گئی اور علاج کے دوران ہی ان کی موت ہو گئی۔ شیونندن ساہو کی پوری فیملی کورونا انفیکشن کی زد میں ہے۔ شیونندن ساہو پنجاب کیسری ڈیجیٹل کے نامہ نگار کی شکل میں کام کر رہے تھے۔ بریلی کے صحافی پرشانت سکسینہ بھی کورونا وائرس سے موت کی آغوش میں سما گئے۔ پرشانت کا علاج دہلی کے ایک اسپتال میں چل رہا تھا جہاں علاج کے دوران پرشانت کی 20 اپریل کو موت ہو گئی۔ پرشانت بریلی کی فرید پور تحصیل کے رہنے والے تھے۔


افسروں اور وزراء تک قریبی پہنچ رکھنے والے لکھنؤ کے کئی بڑے صحافیوں کو اسپتال میں علاج نہیں مل سکا اور ان کی موت ہو گئی۔ کورونا نے اتر پردیش کی طبی خدمات کو پوری طرح سے ایکسپوز کر دیا ہے۔ علاج کی کمی میں کیا عام اور کیا خاص، سبھی دم توڑ رہے ہیں۔ حکومت سے گزارش کرنے کے بعد بھی علاج ممکن نہیں ہو پا رہا ہے۔ مقامی صحافی فراز احمد بتاتے ہیں کہ انھوں نے خود کو اتنا کمزور کبھی محسوس نہیں کیا۔ ہر دن ان کے ایک ساتھی کی موت کی خبر آتی ہے اور وہ ان کی ہمت توڑ دیتی ہے۔ لکھنؤ میں آج صبح بھی ایک صحافی کی آکسیجن کی کمی سے موت ہو گئی ہے۔ لکھنؤ کے علاوہ آس پاس کے اضلاع میں بھی کچھ صحافیوں کی موت ہوئی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔