کورونا بحران: کیا بی جے پی میں بغاوت ہوگی؟

کورونا وبا کے تیزی سے پھیلنے کے بعد مرکز، الیکشن کمیشن اور کچھ ریاستی حکومتوں کے خلاف لوگوں میں غصہ ہے، اگر بی جے پی کی ذیلی قیادت میں بے چینی بڑھتی ہے تو پارٹی کو بغاوت کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے

بی جے پی کی جائزہ میٹنگ / آئی اے این ایس
بی جے پی کی جائزہ میٹنگ / آئی اے این ایس
user

سید خرم رضا

ہندوستان میں کورونا وبا کا قہر جاری ہے اور چاروں طرف ہاہاکار مچا ہوا ہے۔ کسی کی موت اس لئے ہو رہی ہے کہ اسے وقت پر آکسیجن نہیں مل پائی اور کسی کی موت اس لئے ہو گئی کیونکہ وقت پر علاج کے لئے اسے اسپتال میں داخلہ نہیں مل پایا۔ مرنے کے بعد بھی مرنے والوں کے قریبی لوگ آخری رسومات ادا کرنے کے لئے ادھر سے ادھر بھٹک رہے ہیں اور کئی گھنٹوں کے بعد آخری رسومات ممکن ہوپا رہی ہیں۔ ایسے حالات میں دنیا بھر سے ہندوستان کے لئے امداد کی پیش کش کی جا رہی ہے اور مدد میں وہ امریکی حکومت بھی شامل ہے جس کے سیاسی مخالف یعنی ڈونالڈ ٹرمپ کے تعلق سے ہمارے وزیر اعظم امریکہ میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہہ کر آئے تھے ’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘۔ یہ بڑپن ہے موجودہ امریکی انتظامیہ کا کہ اس نے ہندوستان کی پریشانی کی اس گھڑی میں سابقہ باتوں کو ذہن میں نہیں رکھا اور مدد کے لئے ہاتھ بڑھایا۔

کورونا وائرس سے پھیلی یہ وبا غریب، امیر، اعلی ذات، ہندو، عیسائی، سکھ، بی جے پی، کانگریس، ترنمول، حکومت کے مخالف مظاہرہ کرنے والوں اور حکومت کی تعریف کرنے والوں میں کوئی تفریق نہیں کر رہی۔ ہر شخص پریشان ہے اور یہ سوچ کر ڈرا سہما گھر میں بیٹھا ہوا ہےکہ کہیں یہ وائرس اس کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔ طبی عملہ، ضروری کام کرنے والے اور کچھ جانباز ضرور ہیں جو اس بیماری سے لڑنے میں لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔ اس کے لئے ان کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔


مرکز، الیکشن کمیشن اور کچھ ریاستوں کی حکومتوں کے خلاف لوگوں میں غصہ بڑھ رہا ہے۔ اس میں سب سے زیادہ شدت نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت، الیکشن کمیشن اور دہلی کی کیجریوال حکومت کے خلاف ہے۔ الیکش کمیشن نے جہاں کورونا وبا کو دیکھتے ہوئے دور اندیشی سے فیصلہ نہیں لیا اور انتخابات نہ کروانے کے متبادل پر غور نہیں کیا وہیں مرکزی اور دہلی کی حکومت نے یہ سوچ کر کچھ نہیں کیا کہ کورونا تو پہلی لہر کے ساتھ ہی غائب ہو گیا۔ دہلی کی کیجریوال حکومت کے پاس اپنے دفاع میں زیادہ کچھ کہنے کو بچا نہیں ہے اور حکومت کے خلاف ماحول بنتا جا رہا ہے۔

جس صورتحال کا بی جے پی کو سامنا ہے اس نے کئی سوال کھڑے کر دئے ہیں۔ حال ہی میں مدھیہ پردیش کا ایک ویڈیو کسی نے شئیر کیا تھا جس میں بی جے پی کا ایک کارکن پارٹی اور اس کی قیادت کے خلاف بیان دے رہا ہے۔ بی جے پی کو ایسی صورتحال کا پورے ملک میں سامنا ہے۔ مقامی کارکن اپنی مقامی قیادت سے جو سوال پوچھ رہے ہیں اس کا مقامی قیادت کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ اعلی قیادت سامنے آ نہیں رہی ہے۔ کہیں مرکزی وزیر صحت کے استعفی کا مطالبہ ہو رہا ہے تو کہیں مودی کی قیادت اور گورننس پر لوگ سوال کھڑے کر رہے ہیں۔ بی جے پی کارکنان کو جو بھی امیدیں ہیں وہ وزیر اعظم مودی اور ان کی شبیہ سے ہے۔


پوری دنیا کا ذرائع ابلاغ کورونا وبا کی شدت کے لئے ہندوستانی حکومت پر انگلی اٹھا رہا ہے۔ خود ہندوستان میں کولکتہ سے شائع ہونے والے اخبار ’دی ٹیلی گراف‘ میں روچر جوشی نے لکھا ہے کہ مودی کو جانا چاہئے۔مودی جو بی جے پی کا سب سے بڑا اور سب سے مقبول چہرا ہیں اگر ان کی شبیہ خراب ہو گئی تو بی جے پی کے لئے مسائل کھڑے ہو جائیں گے۔ کورونا وبا کی وجہ سے وزیر اعظم کی گرتی ساکھ صرف بی جے پی کے تشویش کاسبب نہیں ہے بلکہ آر ایس ایس کے لئے بہت بڑی بے چینی کا بائث ہو سکتی ہے۔

کیا کورونا وبا سے بی جے پی کی ہو رہی خراب شبیہ کو بچانے کے لئے سنگھ اور بی جے پی قومی قیادت میں تبدیلی کر سکتی ہے؟ اس کے امکان نہ کے برابر ہیں لیکن اگر بی جے پی کی دوسرے نمبر کی قیادت میں بے چینی بڑھ گئی تو بہت ممکن ہے کہ بی جے پی میں بغاوت کو روکنے کے لئے ایسی کوئی صورتحال سامنے آئے۔


ادھر فرانس میں رافیل سودے کو لے کر وہاں کی پبلیکیشن ’میڈیا پارٹ‘ جو سنسنی خیز انکشافات کر رہا ہے اس سے بھی بی جے پی کی پریشانیاں بڑھ سکتی ہیں۔ تازہ خبر کے مطابق فرانس کی ’ایسو شیرپا‘ نامی غیر سرکاری تنظیم نے رافیل سودے کے معاملہ میں عدالت سے رجوع کیا ہے۔ اس میں اگر جانچ آگے بڑھتی ہے تو یہ دونوں ملکوں میں بڑا سیاسی مسئلہ بن سکتا ہے۔ یہ صورتحال کورونا وبا کی وجہ سے خراب ہوئی بی جے پی کی شبیہ کے معاملہ میں آگ میں گھی والا کام کر سکتا ہے۔ مستقبل کے بارے میں تو کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا لیکن آج بی جے پی کے خلاف جو سوال کھڑے ہو رہے ہیں وہ آنے والے دنوں میں اس کے لئے مسائل کھڑے کر سکتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔