25 کروڑ میں تاریخی لال قلعہ ’ڈالمیا بھارت لمیٹڈ‘ کے حوالے

تاریخی وراثتوں سے محبت کرنے والے اور سیاسی پارٹیوں کے ذریعہ مرکزی حکومت کی پرزور تنقید کے بعد مرکزی وزیر سیاحت و ثقافت مہیش شرما نے کسی طرح کے کمرشیل ٹرانجیکشن سے انکار کیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

مرکز کی مودی حکومت نے مغل بادشاہ شاہجہاں کے ذریعہ تیار کردہ تاریخی عمارت ’لال قلعہ‘ کو کارپوریٹ گھرانہ ’ڈالمیا بھارت لمیٹڈ‘ کے حوالے کر دیا ہے۔ ہندوستان کی اب تک کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے جب کسی تاریخی عمارت کو کارپوریٹ گھرانے کے حوالے کیا گیا ہو۔ یہ معاہدہ مودی حکومت کے ذریعہ 27 ستمبر 2017 کو لانچ کیے گئے منصوبہ ’اڈاپٹ اے ہیریٹیج‘ (وراثت کو گود لیں) کے تحت طے پایا ہے جس پر گزشتہ 8 اپریل 2018 کو باضابطہ دستخط ہوئے۔ ڈالمیا گروپ لال قلعہ کو گود لینے کے عوض حکومت کو 25 کروڑ روپے ادا کرے گی۔ اس معاہدہ کے تحت اب ڈالمیا گروپ آئندہ پانچ سال تک اس تاریخی عمارت کا انتظام و انصرام دیکھے گی۔

لال قلعہ کو کارپوریٹ گھرانے کے حوالے کیے جانے کی خبر سے تاریخی وراثت سے محبت کرنے والے لوگوں کے ساتھ ساتھ کئی سیاسی پارٹیاں بھی ناراض نظر آ رہی ہیں۔ کانگریس نے مودی حکومت کے اس فیصلے کی تنقید کرتے ہوئے پوچھا ہے کہ اب بی جے پی حکومت پارلیمنٹ، سپریم کورٹ میں سے کسے پرائیویٹ کمپنی کے حوالے کرے گی؟ اس تعلق سے کانگریس نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر باضابطہ ایک سروے بھی شروع کیا ہے جس کے لیے چار متبادل دیے گئے ہیں جن میں پارلیمنٹ، لوک کلیان مارگ (وزیر اعظم رہائش)، سپریم کورٹ اور ’اوپر دیے گئے سبھی‘ مقامات شامل ہیں۔

راشٹریہ جنتا دل کے لیڈر تیجسوی یادو نے بھی اس معاملے میں مودی حکومت کا مذاق بنایا ہے۔ انھوں نے اپنے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ ’’مودی حکومت کے ذریعہ اسے لال قلعہ کی نجکاری کہو گے، گروی رکھنا کہو گے یا بیچنا۔ اب وزیر اعظم کی یومِ آزادی کی تقریر بھی پرائیویٹ کمپنی کی ملکیت یا کنٹرول والے اسٹیج سے ہوگی۔ ٹھوکو تالی۔ جیکارا بھارت ماتا کا!‘‘

لال قلعہ کو ڈالمیا بھارت لمیٹڈ کے حوالے کیے جانے پر ہنگامہ برپا ہونے کے بعد مرکزی وزیر برائے سیاحت و ثقافت مہیش شرما نے اس طرح کی خبروں کو غلط بتایا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مرکزی حکومت فنڈ کی کمی کے سبب تاریخی وراثتوں کی دیکھ ریکھ نہیں کر پا رہی ہے اس لئے پرائیویٹ ہاتھوں میں دے رہی ہے۔ میڈیا سے بات چیت کے دوران مہیش شرما نے یہ بھی کہا کہ کسی این جی او یا پرائیویٹ فرم سے کسی بھی طرح کا مالی تعاون نہیں لیا جا رہا ہے اور نہ ہی کسی طرح کا کمرشیل ٹرانجیکشن ہوا ہے۔

بہر حال، ذرائع کا کہنا ہے کہ ریاستی وزیر برائے سیاحت (آزادانہ چارج) کے جے الفونس، وزارت کے دیگر سینئر افسران اور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے نمائندوں کی موجودگی میں ڈالمیا گروپ کے ساتھ ایم او یو پر دستخط کیے گئے۔ لال قلعہ کو گود لینے کی کوشش ڈالمیا گروپ کے ساتھ ساتھ انڈیگو ائیر لائنس اور جی ایم آر گروپ بھی کر رہی تھی لیکن زیادہ بولی لگا کر ڈالمیا گروپ نے بازی مار لی۔ لیکن اس معاہدہ کے بعد بہت سارے خدشات بھی سامنے آنے لگے ہیں۔ دراصل اب یہ کارپوریٹ گھرانہ لال قلعہ کو سیاحوں کے درمیان زیادہ مقبول بنانے کے لیے کام کرنے کی کوشش کرے گا اور بعید نہیں کہ اس کوشش میں مغل دور کی تاریخی عمارت کو نقصان پہنچے۔ لال قلعہ کے رکھ رکھاؤ کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل میپ، ٹائلٹ اَپ گریڈیشن، راستوں پر لائٹنگ، بیٹری سے چلنے والی گاڑیاں، چارجنگ اسٹیشن، سرویلانس سسٹم اور کیفیٹیریا وغیرہ کی ذمہ داری بھی ڈالمیا گروپ کے ہاتھوں میں ہوگی اس لیے چھوٹی موٹی تعمیرات اور توڑ پھوڑ سے انکار ممکن نہیں۔ ویسے بھی مارچ2018 کے آخری ہفتہ میں لال قلعہ کے اندر جے سی بی چلائے جانے کا معاملہ سامنے آنے کے بعد پہلے ہی تاریخی وراثتوں سے محبت رکھنے والے لوگ پریشان تھے، اور اب اس کے کارپوریٹ گھرانے کی نگرانی میں دیے جانے کے بعد ان کا مزید پریشان ہونا لازمی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔