بڑے میاں-چھوٹے میاں کی درگاہ پر بھی تنازعہ شروع، ہندوؤں نے ’شنی دیو مندر‘ ہونے کا کیا دعویٰ

ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے کچھ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ جس جگہ پر بڑے میاں-چھوٹے میاں درگاہ موجود ہے وہاں پہلے شنی دیو مندر تھا، درگاہ تو بعد میں قبضہ کر کے بنائی گئی۔

بڑے میاں-چھوٹے میاں کی درگاہ
بڑے میاں-چھوٹے میاں کی درگاہ
user

قومی آوازبیورو

اتر پردیش میں ایک نیا تنازعہ سامنے آ گیا ہے جو بڑے میاں-چھوٹے میاں درگاہ سے جڑا ہوا ہے۔ ہندو طبقہ سے جڑے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ درگاہ پہلے ’شنی دیو مندر‘ تھا جسے منہدم کر دیا گیا تھا۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ایک بار پھر بڑے میاں-چھوٹے میاں درگاہ کی جگہ شنی دیو مندر کی تعمیر کی جانی چاہیے۔ ایٹہ واقع جلیسر میں موجود بڑے میاں-چھوٹے میاں کی درگاہ پہلے سے ہی کچھ مالی بے ضابطگیوں کو لے کر سرخیوں میں تھی، اب اس نئے معاملے نے علاقے میں چہ می گوئیاں شروع کر دی ہیں۔ گزشتہ روز اس درگاہ پر لال رنگ کے دو پرچم لہرا دیئے گئے جو کہ بدھ کے روز بھی درگاہ پر لگے دکھائی دیئے۔ اس سے پہلے درگاہ پر سبز رنگ کا پرچم لہرایا جاتا تھا۔ اس تبدیلی کے پیچھے کی وجہ ابھی تک سامنے نہیں آ سکی ہے۔

ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے کچھ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں پہلے شنی دیو مندر تھا، درگاہ تو بعد میں قبضہ کر کے بنائی گئی۔ ایس ڈی ایم علی گنج النکار اگنیہوتری کا کہنا ہے کہ ’جات‘ کرنے کے لیے ہندو عقیدتمند زیادہ تعداد میں درگاہ پہنچتے ہیں۔ مذہبی روایت کے مطابق وہ نیزہ (پرچم) چڑھاتے ہیں، اور عقیدتمندوں نے ہی یہاں پرچم لگایا ہے۔ مقامی رکن اسمبلی سنجیو دیواکر اور جلیسر دیہات گرام پنچایت پردھان شیلندر سنگھ بھی اس جگہ پر شنی دیو مندر کا دعویٰ کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دورِ قدیم سے اس جگہ پر شنی دیو کا مندر قائم تھا۔ بعد میں درگاہ کمیٹی سے جڑے لوگوں نے قبضہ کر اس کی تعمیر کر لی۔ دھیرے دھیرے مندر کا وجود ہی ختم ہو گیا۔


واضح رہے کہ بڑے میاں-چھوٹے میاں کی درگاہ پر ’شنی جات‘ کے چڑھانے میں کروڑوں روپے کا گھوٹالہ سامنے آنے کے بعد درگاہ کو انتظامیہ اپنے قبضے میں لے چکا ہے۔ اب درگاہ میں انتظامات کو سدھارا جا رہا ہے۔ بڑے میاں درگاہ کے بعد اب چھوٹے میاں درگاہ پر بھی انتظامیہ کی نظر رہے گی۔ دراصل اس درگاہ پر بھی بڑے میاں درگاہ کمیٹی کے عہدیداروں کے رشتہ دار کا ہی قبضہ تھا۔ کارروائی ہونے کے بعد یہ لوگ بھی قصبہ چھوڑ کر بھاگے ہوئے ہیں۔ گرام پنچایت کمیٹی سمیت کچھ مقامی لوگوں کو دیکھ ریکھ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، جب کہ چڑھاوے میں آنے والا پیسہ سرکاری خزانہ میں جمع کیا جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔