پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی کی مدت کار ایک سال سے بڑھا کر 2 سال کرنے پر ہو رہا غور، اراکین پارلیمنٹ مستقل کر رہے تھے مطالبہ

عام طور پر اسٹینڈنگ کمیٹیوں کی نئی مدت کار ستمبر کے آخر یا اکتوبر کے شروع میں طے ہوتا ہے۔ انھیں اکثر ’منی پارلیمنٹ‘ بھی کہا جاتا ہے اور کمیٹیوں کی تشکیل ہر سال کی جاتی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>پارلیمنٹ ہاؤس/&nbsp;سوشل میڈیا</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

مرکزی حکومت پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹیوں کی مدت کار ایک سال سے بڑھا کر 2 سال کرنے پر غور کر رہی ہے۔ اراکین پارلیمنٹ نے اس بارے مین حکومت سے کئی بار شکایت کی ہے کہ اتنے کم وقت میں کسی موضوع پر بہتر اور بامعنی کام کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان شکایتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے مرکزی حکومت جلد ہی لوک سبھا اسپیکر اوم برلا اور راجیہ سبھا کے چیئرمین سی پی رادھاکرشنن سے تبادلہ خیال کرنے کے بعد فیصلہ لے سکتی ہے۔

موصولہ اطلاع کے مطابق کچھ اراکین پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ ایک سال کی مدت میں کمیٹیاں منتخب کردہ موضوعات پر پوری طرح کام نہیں کر پاتیں۔ ایسے میں مدت کار 2 سال ہونے سے وہ گہرائی سے اسٹڈی کر کے سفارشات دے سکیں گی۔ اس مطالبہ کے بعد حکومت نے سنجیدگی سے غور و خوض شروع کر دیا۔


قابل ذکر ہے کہ عام طور پر اسٹینڈنگ کمیٹیوں کی نئی مدت کار ستمبر کے آخر یا اکتوبر کے شروع میں طے ہوتی ہے۔ انھیں اکثر ’منی پارلیمنٹ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ کمیٹیوں کی تشکیل ہر سال ہوتی ہے اور اس میں مختلف پارٹیوں کے اراکین پارلیمنٹ کو ان کی طاقت کے تناسب میں جگہ ملتی ہے۔ کسی کمیٹی کی صدارت عام طور پر لوک سبھا کی نئی مدت کار کے ساتھ ہی طے کر دیا جاتا ہے اور وہ سال بھر عہدہ پر بنے رہتے ہیں۔ حالانکہ اگر کوئی سیاسی پارٹی تبدیلی چاہتی ہے تو صدر کو بدلا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اراکین پارلیمنٹ بھی اپنی خواہش سے کسی دوسری کمیٹی میں شامل ہونے کی گزارش کر سکتے ہیں۔

فی الحال پارلیمنٹ میں 24 محکمہ جاتی اسٹینڈنگ کمیٹیاں ہیں۔ ان میں سے 8 کی صدارت راجیہ سبھا کے اراکین کرتے ہیں، جبکہ 16 کمیٹیوں کی قیادت لوک سبھا اراکین کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ میں مالیاتی کمیٹیاں، عارضی کمیٹیاں اور کئی دگیر کمیٹیاں بھی بنتی ہیں جو بلوں اور مختلف ایشوز پر کام کرتی ہیں۔


بہرحال، حکومت کا بھی ماننا ہے کہ مدت کار بڑھنے سے کمیٹیوں کی سفارشات زیادہ بااثر ہوں گی اور پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے والے بلوں اور پالیسیوں پر گہرائی سے غور و خوض ہو سکے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اراکین پارلیمنٹ کے اس مطالبہ کو کب اور کس طرح پورا کرتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔