جے این یو تشدد کی عدالتی جانچ ہو جس کے دائرے میں امت شاہ بھی ہوں، کانگریس

کانگریس نے دہلی پولیس کی جانچ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ اس پورے واقعہ کی عدالتی جانچ ہو جس کے دائرے میں امت شاہ کو بھی شامل کیا جائے

سوشل میڈیا 
سوشل میڈیا
user

آصف سلیمان

دہلی پولیس نے کل شام جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ہوئے تشدد کے تعلق سے ایک پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے تشدد کے لئے دو بی جے پی کی طلباء تنظیم اے بی وی پی کے ارکان اور سات بائیں محاذ کی طلباء تنظیم کے ارکان کو ذمہ دار ٹھہرایا ۔ کانگریس کے ترجمان اور سابق مرکزی وزیر اجے ماکن نے دہلی پولیس کے بیانات اور جانچ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ پولیس سیاسی دباؤ میں کام کر رہی ہے ۔ اجے ماکن نے دہلی کے پولیس کمشنر کو فورا ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے ۔

سابق مرکزی وزیر اجے ماکن نے نہ صرف دہلی پولیس کے کمشنر کو ہٹانے کی مانگ کی بلکہ اس سارے معاملہ کی عدالتی جانچ کا مطالبہ کرتے ہوئے اس جانچ کے دائرے میں وزیر داخلہ امت شاہ کو شامل کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ ماکن نے کچھ ویڈیو اور تصاویر شئیر کرتے ہوئے دہلی پولیس کی جانچ پر سوال کھڑے کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’دہلی پولیس اصلی نقاب پوش ملزمین کا پتہ لگانے میں ناکام ہے جبکہ ٹی وی چینل جن کے پاس محدود ذرائع ہیں وہ ان نقاب پوشوں کا پردہ ہٹانے میں کامیاب ہو گئے ہیں ‘‘۔ انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سب کو امید تھی کہ دہلی پولیس کی جانچ میں انصاف نظر آئے گا اور جو بھی تشدد کے لئے ذمہ دار ہیں ان کے نام سامنے آئیں گے لیکن دہلی پولیس کے بیانات سے اس کے غیر جانبدار ہونےپر سوال کھڑے ہو گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ موقع کا ویڈیو دکھا رہا ہے کہ جیسے بارات سے کھانا کھانے کے بعد لوگ نکلتے ہیں ویسے ہی نقاب پوش تشدد کے بعد وہاں سے آرام سے نکل رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ پولیس خود اس سارے معاملہ میں شامل نظر آ رہی ہے۔

اجے ماکن نے الزام لگایا کہ اس حادثہ کا ویڈیو فوٹیج غائب کر دیا گیا ہے اور اب دہلی پولیس اپنی تمام تر توجہ جے این یو میں تشدد کے دن دوپہر ساڑھے تین بجے پر مرکوز کر رہی ہے اور اسی کے تحت نو افراد کے نام سامنے لائی ہے۔ماکن نے دہلی پولیس کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہےکہ دہلی پولیس جس نوجوان کو وکاس پٹیل بتا رہی ہے اصل میں اس کا نام شیو منڈل ہے اور اسی بات سے دہلی پولیس کی جانچ پر سنگین سوال کھڑے ہوتے ہیں کہ جانچ غیر جانبدار اور صحیح نہیں ہے ۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔