کیا ہندوستانی مسلمانوں کے اقتصادی بائیکاٹ کی کوشش کی جا رہی ہے؟

ہندوستان میں مذہبی تفریق کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن آج جس طرح سے اس کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے وہ نیا چلن ضرور ہے۔ اب یہ سوال کھڑا ہو گیا ہے کہ کیا مسلمانوں کے اقتصادی بائیکاٹ کی کوشش کی جا رہی ہے؟

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

روہت پرکاش

’’ڈیئر شعیب! تم ایک مسلمان ہو اور مجھے تمہارے اخلاقی کام پر کوئی عقیدہ نہیں ہے کیوں کہ قرآن میں صارفین کی سروس کے لئے الگ طور طریقہ ہو سکتے ہیں۔ اس لئے میں اپنا کام کسی ہندو نمائندہ کے حوالہ کرنے کی سفارش کر رہی ہوں۔‘‘ ایئرٹیل ڈی ٹی ایچ کو لے کر ہوئی پریشانی کے بعد پوجا سنگھ نامی خاتون نے ٹوئٹر پر ایئرٹیل کے نمائندہ شعیب سے اس طرح سے بات کی جب اس نے پوجا سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی۔‘‘

صحافی سید اشرف کو دہلی کے جامعہ نگر لے جا رہی اولا کیب کے ڈرائیور نے بیچ راستہ میں اس لئے اتار دیا کیوں کہ وہ مسلم کالونی میں نہیں جانا چاہتا تھا اور اشرف کے احتجاج کرنے پر اس ڈرائیور نے دھمکی بھی دے ڈالی۔

گزشتہ دنوں لکھنؤ میں ابھیشیک مشرا نے ایک اولا کیب کو اس لئے رد کر دیا تھا کیوںکہ وہ کسی مسلم ڈرائیور کی کیب میں نہیں بیٹھنا چاہتا تھا۔

یہ تین واقعات غیر انسانی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان تینوں واقعات کو لے کر لوگوں نے ٹھیک ہی غصہ ظاہر کیا اور جو صحیح تھا اس کی واضح الفاظ میں حمایت کی۔ ہندوستان جیسے ملک میں مذہب کی بنیاد پر اس طرح کی کھلے عام تفریق کوئی نئی بات نہیں ہے۔ نیا اس لئے نہیں کہ ایسا ہوتا نہیں آرہا ہے بلکہ نیا اس لئے ہے کیوں اسے اتنی بے شرمی سے ظاہر نہیں کیا جاتا تھا۔ کیا ملک کے مسلمانوں کا اقتصادی بائیکاٹ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ بہت زیادہ غلط ہوگا اور ہم بربادی کی طرف گامزن ہیں۔

مسلمانوں کو ہندو مکان مالکان کی طرف سے اپنا مکان کرایہ پر دینے سے منع کرنے کی ان گنت مثالیں ہیں۔ گئو کشی کے نام پر یا کسی دوسری چیز کو مدا بنا کر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ گزشتہ کچھ سال شروع ہوا جو ہمارے ملک میں موب لنچینگ کے کلچر کا روپ اختیار کر چکا ہے۔ ذات اور مذہب کی بنیاد پر طبقات کا دڑبے میں بند ہونا ہندوستان میں ایک لمبے عمل کا حصہ ہے اور خصوصی طور پر مسلمانوں کو اس کا نشانہ بنایا گیا۔

ملک کی فرقہ وارانہ بناوٹ کو چیلنج کرنے کی ہر کوشش کسی نہ کسی اعلان یا غیر اعلانیہ معاہدے میں ختم ہوئی ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہوا کہ گزشتہ چند دہائیوں میں کوئی اچھی بات ہوئی ہی نہیں ہے، سمجھ بڑھ رہی تھی، ہم آہنگی بڑھ رہی تھی، پر امن طریقے سے ساتھ رہنے کے فوائد دکھائی دے رہے تھے، بڑے شہروں میں دیواریں ٹوٹ رہی تھیں، لیکن اچانک ایسا لگ رہا ہے کہ ہم جتنا آگے بڑھے تھے، اس سے کئی گنا واپس جا چکے ہیں۔

ایسا کب ہوا، کیوں ہوا؟ سماجی سطح پر ہو رہے اتنے بڑے منفی بدلاؤ پر آزاد سوچ رکھنے والوں کی نظر کیوں نہیں پڑی؟ کیا ہم مغالطہ میں تھے؟ شاید ہاں۔ لیکن اب ہم اور زیادہ مغالطہ میں نہیں رہ سکتے۔ ہمیں جلد سے جلد معاشرے میں ذاتی اور اجتماعی سطح پر بیداری کی مہم کے ذریعہ اس سمجھ سے لڑنا ہوگا اور اسے ختم کرنا ہوگا، ہو سکے تو ہمیشہ کے لئے۔ صرف یہ ہمیں تباہی سے بچا سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔