اگر توجہ نہیں دی گئی تو ناپید ہو جائے گی اردو! فاروق عبداللہ

نیشنل کانفرنس صدر و رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے، فرقہ پرستوں نے اس زبان کو مسلمانوں کے ساتھ جوڑ کر اس کے ساتھ بڑا ظلم کیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

سری نگر: نیشنل کانفرنس صدر و رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ فرقہ پرستوں نے اس زبان کو مسلمانوں کے ساتھ جوڑ کر اس کے ساتھ بڑا ظلم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مرکزی حکومت نے اردو کی جانب خصوصی توجہ نہیں دی تو یہ زبان ناپید ہوسکتی ہے۔

فاروق عبداللہ ہفتہ کے روز یہاں کشمیر یونیورسٹی کے علامہ اقبال لائبریری کے آڈیٹوریم میں ایک تقریب سے خطاب کررہے تھے جس میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے زیر اہتمام یونیورسٹی ھٰذا میں منعقد کئے جارہے 23 ویں کل ہند اردو کتاب میلے کا افتتاح کیا گیا۔ کتاب میلہ 23 جون تک جاری رہے گا۔ میلے میں قائم 51 سٹالوں میں ایک لاکھ سے زیادہ ادبی، سیاسی، سماجی، مذہبی، طبی، اخلاقی، سائنسی اور دیگر موضوعات پر کتابیں دستیاب ہیں۔


نیشنل کانفرنس صدر تقریب کے دوران اُس وقت شدید ناراض ہوگئے جب نظامت کے فرائض انجام دینے والی خاتون نے تقریب کی کارروائی چلانے کے لئے انگریزی زبان کا استعمال کیا۔ اگرچہ فاروق عبداللہ نے مذکورہ خاتون کو روکا اور ٹوکا تاہم کشمیر یونیورسٹی سے وابستہ یہ خاتون اردو میں کارروائی نہیں چلا سکی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اردو کی اس تقریب میں آڈیٹوریم میں پروجیکٹر کی مدد سے دیوار پر نظر آنے والا بینر بھی انگریزی میں لکھا تھا۔

قبل ازایں فاروق عبداللہ نے کتاب میلے کا معائنہ کرنے کے دوران سری نگر کے معروف سکول 'میلنسن' کی ایک طالبہ سے جب پوچھا کہ وہ کون کون سی زبان پڑھتی ہیں تو اس نے جواب میں کہا کہ وہ انگریزی اور ہندی پڑھتی ہیں۔ اس پر فاروق عبداللہ نے افسوس کا اظہار کیا اور وہاں موجود سبھی طلبا سے اپیل کی کہ وہ زیادہ ترجیح اردو کو دیں۔


این سی صدر نے تقریب سے اپنے خطاب میں کہا: 'اردو مسلمانوں کی زبان نہیں ہے۔ یہ ہندوستان میں رہنے والے لوگوں کی زبان ہے۔ مگر افسوس کہ فرقہ پرستوں نے اس زبان کو مسلمانوں کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ صرف مسلمان ہی اردو پڑھتے ہیں۔ اردو کے اخبارات اب مشکل سے ہی چلتے ہیں۔ جب تک مرکز کی حکومت اس جانب توجہ نہیں دے گی اردو زبان آہستہ آہستہ ناپید ہوجائے گی۔ جیسے کشمیری زبان کشمیر میں ناپید ہوگئی'۔

انہوں نے کہا: 'مرکز نے جنوبی ہندوستان میں ہندی متعارف کرنے کی کوشش کی۔ لیکن بڑا شور اٹھا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری زبانیں تو تامل، تلگو، ملیالم اور کنڑ ہیں۔ ہمیں ان کے بغیر کوئی دوسری زبان منظور نہیں۔ لیکن کیا کبھی ہم نے سوچا کہ ہماری سرکاری زبان تو اردو ہے۔ جموں میں جہاں فرقہ پرستی کی آگ لگی ہوئی ہے وہاں اردو کے اساتذہ ہندی پڑھا رہے ہیں۔ اردو کہاں بچی ہے؟'۔
فاروق عبداللہ نے موبائیل فونوں کے ضرورت سے زیادہ استعمال پر کہا کہ موبائیل فون نے بیڑا غرق کردیا ہے۔


ان کا کہنا تھا: 'موبائیل فون نے بیڑا غرق کردیا ہے۔ آج گھر میں ایک دوسرے سے بات چیت ہوتی ہی نہیں۔ میرے گھر میں میری بیٹی کے دو بچے ہیں۔ وہ جب بھی گھر میں موجود رہتے ہیں تو موبائیل فون پر گیم کھیل رہے ہوتے ہیں یا کوئی تماشہ دیکھنے میں مصروف ہوتے ہیں'۔

فاروق عبداللہ نے کشمیر یونیورسٹی میں زیر تعلیم طلباء و طالبات کو تاکید کی کہ وہ پڑھائی کی طرف خاص توجہ دیں کیونکہ تعلیم ہی آپ کی اور ریاست کے روشن اور تابناک مستقبل کی واحد ضمانت ہے۔ انہوں نے کشمیری زبان کے فروغ کی بھی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ہماری بنیادی طور کشمیری ہیں اور ہمارا کلچر، تہذیب و تمدن اُسی صورت میں زندہ رہ سکتا ہے جب ہم اپنی مادری زبان کو ہمیشہ دوام بخشتے رہیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی ریاست کی دیگر زبانوںجن میں ڈوگری، لداخی، گوجری، پہاڑی، شینا، بلدی، پستو اور پنجابی جیسی کو بھی فراموش نہیں کرنا ہے۔


فاروق عبداللہ نے تقریب کے حاشئے پر نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو بڑی تعداد میں اس کتاب میلے کا رخ کرنا چاہیے۔ انہوں نے این سی پی یو ایل کی سراہنا کرتے ہوئے کہا کہ اردو جیسی میٹھی زبان کوئی اور نہیں۔ اس زبان میں ایک بہت بڑا خزانہ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔