مودی حکومت پر نئی آفت، سی بی آئی میں ناگیشور راؤ کی تقرری کو سپریم کورٹ میں چیلنج

عدالت عظمیٰ میں داخل عرضی میں کہا گیا ہے کہ ناگیشور راؤ کی تقرری غیر قانونی، خاص مقصد سے اور منمانا طریقہ اپنا کر دہلی پولس اسپیشل ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کی گئی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ایشلن میتھیو

آلوک ورما کو سی بی آئی ڈائریکٹر کے عہدہ سے ہٹا کر مودی حکومت نے اپنے پیر پر کلہاڑی مار لی ہے۔ ’کامن کاؤز‘ نامی این جی او کی جانب سے سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کر ایم. ناگیشور راؤ کو سی بی آئی کا عارضی ڈائریکٹر بنائے جانے پر سوال اٹھایا ہے۔ اس عرضی میں آر ٹی آئی کارکن انجلی بھاردواج بھی شامل ہیں۔

عرضی میں کہا گیا ہے کہ ناگیشور راؤ کی تقرری غیر قانونی، خاص مقصد سے اور منمانا طریقہ اپنا کر دہلی پولس اسپیشل ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کی گئی ہے۔ عرضی کے مطابق حکومت سی بی آئی ڈائریکٹر کے عہدہ پر صرف اعلیٰ اختیار یافتہ کمیٹی کی سفارش پر ہی تقرری کر سکتی ہے۔ اس کمیٹی میں وزیر اعظم، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یا ان کے ذریعہ نامزد سپریم کورٹ کے کوئی جج اور اپوزیشن کے لیڈر ہوتے ہیں۔

عرضی میں کہا گیا ہے کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے اس کمیٹی کو پوری طرح نظرانداز کر دیا ہے اور بغیر کسی آئینی اختیار کے ناگیشور راؤ کو عارضی ڈائریکٹر کے عہدہ پر مقرر کر دیا ہے۔‘‘ غور طلب ہے کہ حکومت نے 10 جنوری 2019 کو ناگیشور راؤ کو اس عہدہ پر تقرر کیا۔ اسی دن حکومت کی طرف سے جاری حکم میں کہا گیا کہ کابینہ کی تقرری کمیٹی نے ناگیشور راؤ کو پہلے کے انتظام کے مطابق اس عہدہ پر مقرر کیا ہے۔

اس معاملے میں سینئر وکیل پرشانت بھوشن کا کہنا ہے کہ ’’ناگیشور راؤ کی 23 اکتوبر 2018 کو تقرری اس وقت کی گئی تھی جب حکومت نے اس وقت کے سی بی آئی سربراہ آلوک ورما کو چھٹی پر بھیج دیا تھا۔ لیکن سپریم کورٹ نے 8 جنوری 2019 کو اپنے حکم میں آلوک ورما کو چھٹی پر بھیجنے کے فیصلے کو رد کرتے ہوئے انھیں پھر سے بحال کر دیا تھا۔ لیکن پھر بھی حکومت نے پہلے سے رَد ہوئے فیصلے کی بنیاد پر ناگیشور راؤ کو تقرر کر دیا ہے۔‘‘ انھوں نے بتایا کہ سی بی آئی ڈائریکٹر کے عہدہ پر تقرری کے لیے کابینہ کی سلیکٹ کمیٹی کو اختیار نہیں ہے۔

تو کیا منمانے طریقے سے اپنی پسند کے افسر کو سی بی آئی میں بٹھا کر حکومت سی بی آئی جیسے ادارہ کی خودمختاری ختم کرنا چاہتی ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ ’’حکومت نے اس تقرری کے ذریعہ سی بی آئی کو کسی بھی عوامی تجزیہ سے دور رکھنے اور سی بی آئی کے کام کو متاثر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ساتھ ہی اس عمل کی بھی خلاف ورزی کی ہے جس کے تحت سی بی آئی ڈائریکٹر عہدہ کے لیے افسروں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سنٹرل وجلنس کمیشن اور انفارمیشن کمیشن جیسے اداروں کا قد بھی کم کیا گیا ہے۔‘‘

عرضی میں اگلے سی بی آئی ڈائریکٹر کی تقرری میں شفافیت کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ پرشانت بھوشن نے کہا کہ عرضی میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ان افسروں کے نام اور انھیں شارٹ لسٹ کرنے کی بنیاد بتائے جن کے نام سی بی آئی ڈائریکٹر عہدہ کے لیے زیر غور ہیں۔ ’کامن کاؤز‘ کے ساتھ مشترکہ عرضی دہندہ انجلی بھاردواج نے سپریم کورٹ سے اپیل کی ہے کہ سی بی آئی ڈائریکٹر کی تقرری میں شفافیت قائم کرنے کے لیے خاص پیمانے طے کیے جائیں۔

انجلی بھاردواج کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’حکومت تقرری میں مکمل شفافیت اپنانے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ ساتھ ہی شارٹ لسٹ کیے گئے افسروں کے نام بھی سامنے نہیں لائے جا رہے ہیں اور نہ ہی ان کے بارے میں بنیادی جانکاریاں دی جا رہی ہیں۔‘‘ انجلی بھاردواج نے دسمبر 2018 میں کئی عرضیاں ڈال کر تقرری کے عمل پر سوال پوچھے تھے، لیکن حکومت کی طرف سے انھیں کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

https://twitter.com/AnjaliB_/status/1082678220053458944

وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت والی اعلیٰ اختیار یافتہ کمیٹی نے 10 جنوری کو آلوک ورما کو ان کے عہدہ سے ہٹا دیا۔ اس کمیٹی میں اپوزیشن کے لیڈر ملکارجن کھڑگے اور سپریم کورٹ کے جج جسٹس اے کے سیکری شامل تھے۔ جسٹس سیکری کو چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے اس کمیٹی کے لیے نامزد کیا تھا۔ کھڑگے نے آلوک ورما کو ہٹائے جانے کی مخالفت کی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔