مغربی بنگال: اے بی وی پی طلباء اورپولس کے درمیان تصادم، کئی افراد زخمی

مرکزی وزیر مملکت بابل سپریو کے ساتھ گزشتہ دنوں ہوئی مبینہ بدسلوکی کے خلاف اے بی وی پی نے احتجاجی جلوس نکالنے کا اعلان کیا تھا جو گول پارک سے شروع ہوکر جادو پور یونیورسٹی تک پہنچا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

کولکاتا:گزشتہ ہفتہ جادو پور یونیورسٹی میں مرکزی وزیر مملکت بابل سپریہ کے ساتھ مبینہ بدسلوکی کے خلاف احتجاج کررہے ہیں اے بی وی پی کے ممبران اورپولس کے درمیان پتھراؤ ہونے کی وجہ سے کئی افراد زخمی ہوگئے ہیں۔

گزشتہ ہفتے جمعرات کو مرکزی وزیر مملکت بابل سپریہ اے بی وی پی کے ایک پروگرام میں شرکت کے لئے جادو پور یونیورسٹی پہنچے جہاں کمیونسٹ حامی طلباء جماعتوں کے ممبران نے نعرہ بازی، ہنگامہ آرائی کی اس درمیان کچھ طلبا اور مرکزی وزیر کے درمیان دھکا مکی بھی ہوئی۔بابل سپریہ کے مطابق دھکامکی کے ساتھ ساتھ ان کے بال بھی نوچے گئے ۔


اس واقعے کے خلاف اے بی وی پی نے احتجاجی جلوس نکالنے کا اعلان کیا تھا جو گول پارک سے شروع ہوکر جادو پور یونیورسٹی تک پہنچنا تھا۔مگر جادو پو یونیورسٹی کے باہر بڑی تعداد میں پولس اہلکار تعینات تھے اور یونیورسٹی کے صدردروازے سے پہلے ہی پولس نے بریگیڈ لگادیا تھا۔چنانچہ مظاہرین کو جب آگے بڑھنے سے روک دیا گیا تو حالات خراب ہوگئے اور مظاہرین پولس پر بتھراؤ کرنے لگے جس میں کئی افراد زخمی ہوگئے ہیں۔

مرکزی وزیر بابل سپریہ کے ساتھ ہوئے واقعے کو گورنر بنگال نے انتہائی تشویش ناک بتاتے ہوئے انتظامیہ کو سخت کارروائی کرنے کی ہدایت دی تھی۔بابل سپریہ ٹوئٹ کرکے کہا کہ اس چھ گھنٹے سے متعلق کہنے کیلئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ممتا بنرجی کی حکومت کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔یہ گندی سیاست کا نتیجہ ہے۔سی پی ایم حامی طلباء کا احتجاج شروع ہونے کے بعد ہی اگروائس چانسلر کارروائی کرتے تو پروگرام شروع ہونے سے قبل ہی حالات کنٹرول میں آجاتے۔اے وی بی پی نے پہلے سے ہی پروگرام کی اجازت لے رکھی تھی۔


ترنمول کانگریس نے کہا کہ نہ اس معاملے میں ترنمول کانگریس ملوث ہے اور نہ ہی پولس۔ریاستی وزیر تعلیم پارتھو چٹرجی نے گورنر کی سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ حکومت سے رابطہ کیے بغیر بابل سپریہ کو نام نہاد ریسکیو کرنے کیلئے پہنچ گئے۔جب کہ یہ اصولی طور پر خلاف ہیں انہیں ریاستی انتظامیہ سے رابطہ کرنا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔