چیف جسٹس پر اخلاقی اور نفسیاتی دباؤ!

سپریم کورٹ کے ججوں اور ہائی کورٹ کے ججوں کو صرف امپِیچ کیا جا سکتا ہے اور وہ ایک لمبا اور مشکل عمل ہے لیکن اخلاقی اور نفسیاتی اعتبار سے سی جے آئی کے اوپر زبردست دباؤ رہے گا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

سپریم کورٹ کے چار سینئر ججوں نے میڈیا میں آکر ملک کے سامنے جو بڑے سوال رکھے ہیں ان کا وہ قدم نہ صرف تاریخی نوعیت کا ہے بلکہ انتہائی غیر معمولی ہے۔ چار سینئر ججوں نے جن خدشات اور تشویشات کا اظہار کیا ہے اس نے عوام میں بڑے پیمانے پر بے چینی پیدا کر دی ہے ۔ جس عدلیہ سے عوام انصاف کی امید رکھتی ہے اگر اسی عدلیہ میں انصاف کو لے کر سوال اٹھائے جا رہے ہوں تو پھر یہ بے چینی لازمی ہے ۔قومی آواز نے کچھ ایسے سوالوں کے جواب دھونڈنے کی کوشش کی ہے جو عوام کو بے چین کر رہے ہیں۔

سپریم کورٹ کے چار سینئر ججوں نے اپنے خط میں جو سوال اٹھائے ہیں ان کا کیا مطلب ہے؟

خط میں جو سوال اٹھائے ہیں اس میں چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا اور ان سے پہلے کے ججوں نےفیصلوں کو متاثر کرنے کے لئے اپنی مرضی کے ججوں کو سنوائی کے لئے کیس دئے۔

کیا یہ عدلیہ کا اندرونی معاملہ ہے یا اس میں ایگزیکیوٹیو کا کوئی کردار ہے؟

نریندر مودی کی سرکار نے کہہ دیا ہے یہ عدلیہ کا اندرونی معاملہ ہے۔لیکن سینئر ججوں نے جو خط جاری کیا ہے اس میں کچھ عدلیہ کا اندرونی جھگڑا ہے اور کچھ ایگزیکیوٹیواور عدلیہ کا جھگڑا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا (سی جےآئی)کے بعد چار سینئر جج اس بات سے ناراض ہیں کہ کیس ان ججوں کوسنوائی کے لئے دئے گئے جو ان چاروں ججوں سے کافی جونیئر ہیں۔سینئر جج اپنی ناراضگی کو اس وقت عوام کے سامنے لائے ہیں جب یہ خیال بھی گشت کر رہا ہے کہ چیف جسٹس آف انڈیا نے کچھ معاملوں میں وہ پوزیشن لی ہے جو مودی حکومت کے لئے مددگار ثابت ہو سکتی ہے اور کچھ معاملوں میں حکومت کو تھوڑی راحت پہنچا سکتی ہے جبکہ اس تعلق سے یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا۔

مثال کے طور پر جمعہ کو سی بی آئی کے اسپیشل جج بی ایچ لویا کی موت کی آزادانہ جانچ سے متعلق ایک پی آئی ایل کو عدالت نمبر 10 کوسننے کے لئے دے دیا گیا جس کے ہیڈ جسٹس ارون مشرا ہیں جن کا نمبر سینئرٹی میں سپریم کورٹ کی 25 ججوں کی فہرست میں 10ویں نمبر پر آتا ہے۔ واضح رہے جج لویا کی جس وقت موت ہوئی تھی اس وقت وہ سہراب الدین شیخ فرضی انکاونٹرکا معاملہ سن رہے تھے جس میں بی جے پی کے صدر امت شاہ ایک ملزم تھے۔شاہ کو اسی مہینے میں بری کر دیا گیا تھا جس ماہ میں لویا کی موت ہوئی تھی۔

بتایا جا رہا ہے کہ چار ججوں نے جمعہ کو چیف جسٹس آف انڈیا سے ملاقات کی تھی اور کہا تھا کہ یہ معاملہ سینئر ججوں کے نام پر لسٹ کیا جائے لیکن سی جے آئی نے ان کی بات نہیں مانی۔

چار سینئر جج آخر کیوں بولے؟

انہوں نے دو ماہ پہلے ایک خط بھیجا تھا لیکن ان کو ابھی تک اس کا جواب نہیں ملا۔ چار ججوں نے اپنی پریس کانفرنس میں کسی خاص مدے پر بات نہیں کی صرف اتنا کہا کہ چونکہ ملک کی جمہوریت کو خطرہ ہے اس لئے وہ یہ بات ملک کے سامنے لا رہے ہیں۔

یہ خط حکومت کو کسی طرح پریشان کر سکتا ہے؟

خط میں تحریر ہے کہ ’وہ معاملے جن کا ملک اور اداروں پر وسیع اثر ہو سکتا ہے ان کو چیف جسٹس نے بغیر کسی جائز وجہ کے اپنی مرضی کی بینچوں کو سننے کے لئے دیئے ہیں‘‘۔

کئی اہم معاملے جیسے ایودھیا کا معاملہ، آدھار کارڈ کی آئینی حیثیت اور عدالت کا یہ حق کہ عدالتی فیصلہ سنانے کے لئے پارلیمانی پینل رپورٹوں کو دیکھ سکتی ہیں۔ ان معاملوں کی سنوائی آگے بننے والے سی جے آئی یا ایسے کہئے کہ سی جے آئی کے بعد سب سے سینئر جج جونئیر ججوں کے ساتھ سنوائی کرتے ہیں۔

چار سینئر جج یہ مانتے ہیں کہ ان معاملوں کا ملک پر وسیع اثر پڑے گا اس لئے ان معاملوں کی سنوائی سینئر ججوں کو ہی سننا چاہئے لیکن سی جےآئی کے علاوہ کسی بھی سینئر جج کو ان معاملوں کی سنوائی میں شامل نہیں کیا گیا۔

خط میں تحریر ہے کہ ’’ہم افسوس کے ساتھ یہ بات کہہ رہے ہیں کہ کافی دنوں سے ’ٹون رول‘ پر سختی سے عمل نہیں کیا گیا‘۔ اس کا کیا مطلب ہے؟

’ٹون رول‘ کا تعلق معاملے کی سنوائی کے لئے بنائی جانے والی بینچ کی تعداد سے ہے۔ چار ججوں کا کہنا ہے کہ سی جےآئی نے ایودھیا اور آدھار جیسے قومی اہمیت کے حامل معاملوں کی سنوائی کے لئے جو بینچ تشکیل دی ہے اس کی نہ تو بینچ بنانے کے تعلق سے اور نہ ہی اس میں کتنے جج ہوں گے اس تعلق سے ان سے کوئی مشورہ کرتے ہیں۔

ایودھیا معاملے کی سنوائی سی جے آئی، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس عبد النذیر کر رہے ہیں اور اشوک بھوشن سینئرٹی میں 19ویں نمبر پر آتے ہیں۔

آدھار کارڈ معاملے کی سنوائی کے لئے جو پانچ رکنی آئینی بینچ تشکیل دی گئی ہے اس میں سی جے آئی کی صدارت میں کوئی بھی سینئر جج نہیں ہے بلکہ اس میں جسٹس سیکری (سینئرٹی میں 6ٹیں نمبر پر)اے ایم کھانولکر (17ویں نمر پر)، ڈی وائی چندرچود (18ویں نمبر پر) اور اشوک بھوشن (19ویں نمبر پر) ہیں۔

خط میں جس لوتھرا معاملے کا ذکر ہے۔ یہ معاملہ کیا ہے؟

آر پی لوتھرا ایک وکیل ہیں جنہوں نے دہلی ہائی کورٹ میں اپنے جج کی تقرری نہ کئے جانے کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی دی تھی۔ گزشتہ سال اکتوبر میں جسٹس دیپک مشرا کی بینچ نے ان کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے حکومت سے کہا تھا کہ ججوں کی تقرری اور ٹرانسفر سے متعلق ضابطوں کے میمورینڈم میں تیزی سے کام کیا جائے۔ اس معاملے پر ابھی تک کوئی کام نہیں ہوا۔

کیا یہ چار سینئر جج سی جے آئی کے تحت کام کر پائیں گے؟

جو قانونی حفاظت سی جے آئی کو حاصل ہے وہ ان چار ججوں کو بھی حاصل ہے لیکن جو ناراضگی کھلے میں آ گئی ہے یہ کالیجئم کے کام کاج میں دشواریاں پیدا کر سکتا ہے ۔ ویسے بدھ کے روز یہ چاروں جج سی جے آئی کے ساتھ بیٹھے تھے اور انہوں جسٹس کے ایم جوزف اور سینئر خاتوں وکیل کی ترقی کا فیصلہ لیا تھا۔

کیا اس سے سی جے آئی کی پوزیشن متاثر ہوگی؟

سی جے آئی، سپریم کورٹ کے ججوں اور ہائی کورٹ کے ججوں کو صرف امپِیچ کیا جا سکتا ہے اور وہ ایک لمبا اور مشکل عمل ہے لیکن اخلاقی اور نفسیاتی اعتبار سے سی جے آئی کے اوپر زبردست دباؤ رہے گا۔ وہ مستعفی ہو سکتے ہیں لیکن ایسا مشکل لگتا ہے۔

ایسا کیوں کہا جا رہا ہے کہ جسٹس رنجن گوگوئی نے سب سے ہمت والا قدم لیا ہے؟

دراصل یہ اس لئے کہا جا رہا ہے کہ جسٹس گوگوئی کو 4 اکتوبر کے بعد سے 18 نومبر 2019 تک جب ان کو ریٹائر ہونا ہے تب تک ان کو سینئرٹی کے اعتبار سے سی جے آئی بننا تھا اور ابھی تک یہ ہی روایت رہی ہے کہ سب سے سینئر جج ہی سی جے آئی بنتے ہیں۔ ان کے اس اقدام کے بعد ان کے سی جے آئی بننے میں پریشانی کھڑی ہو سکتی ہیں اس لئے ایسا کہا جا رہا ہے۔

(انگریزی روزنامہ ’دی ٹیلی گراف‘ میں شایع رپورٹ پر مبنی)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 13 Jan 2018, 12:16 PM