ملک بھر میں شدید احتجاج کے درمیان ’شہریت ترمیمی قانون‘ کو صدر کی منظوری

لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے پاس ہونے کے بعد شہریت ترمیمی بل کو صدر رام ناتھ کووند کی منظوری مل گئی ہے اور اس کے ساتھ ہی اب یہ قانون بن چکا ہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

شہریت ترمیمی بل 2019 کو پہلے پیر کے روز لوک سبھا اور پھر بدھ کے روز راجیہ سبھا سے منظور کئے جانے کے بعد جمعرات کی رات دیر گئے صدر کی جانب سے بھی منظوری دے دی گئی۔ اس طرح ملک بھر میں، خاص طور سے شمال مشرقی ریاستوں میں شدید احتجاج کے درمیان آخرکار یہ بل قانون میں تبدیل ہو گیا۔

راجیہ سبھا میں شہریت ترمیمی بل کے حق میں 125 اور مخالفت میں 105 ووٹ ڈالے گئے تھے۔ اس سے قبل بل کو سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجنے کی تجویز کو مسترد کر دیا گیا تھا۔ اس قانون کے بعد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے غیر مسلم افراد کے لئے رہائشی سند نہیں ہونے کے باوجود شہریت حاصل کرنا آسان ہو جائے گا۔

ملک بھر میں شدید احتجاج کے درمیان ’شہریت ترمیمی قانون‘ کو صدر کی منظوری

ہندوستان کی شہریت کے اہل بننے کی آخری تاریخ 31 دسمبر 2014 ہوگی۔ مطلب یہ کہ جو لوگ اس تاریخ سے پہلے یا اس تاریخ تک ہندوستان میں داخل ہوتے ہیں وہ شہریت کے لئے درخواست دینے کے اہل ہوں گے۔ شہریت کا اطلاق پچھلی تاریخ سے ہوگا۔

اس بل کے خلاف ملک بھر میں احتجاج جاری ہیں اور شمال مشرقی خطہ تو گویا آگ میں جل رہا ہے اور کئی علاقوں میں شدید مظاہروں کے درمیان آگزنی، فوج کے فلیگ مارچ، لاٹھی چارج اور فائرنگ کے بعد کرفیو نافذ کرنا پڑا۔ جبکہ انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس سروسز کو بھی معطل رکھا گیا ہے۔


شمال مشرقی خطہ کی آسام، میگھالیہ اور تریپورہ ریاستوں میں پرتشدد مظاہرے جاری ہیں۔ حالات کو قابو کرنے کے لئے سیکیورٹی فورسز کی طرف سے فلیگ مارچ کیا جارہا ہے۔ میگھالیہ میں موبائل انٹرنیٹ اور پیغام رسانی کی خدمات پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ میگھالیہ میں موبائل، انٹرنیٹ اور پیغام رسانی کی خدمات 48 گھنٹوں کے لئے بند کردی گئیں۔ اسی کے ساتھ، گوہاٹی کے بعد جمعرات کی رات 10 بجے سے شیلونگ میں بھی کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔

راجیہ سبھا میں شہریت ترمیمی بل پیش کرنے کے بعد مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا تھا، میں اس ایوان کے سامنے ایک تاریخی بل پیش کر رہا ہوں۔ اس بل کے التزامات سے لاکھوں افراد کو فائدہ ہوگا۔ افغانستان، پاکستان، بنگلہ دیش میں رہنے والے اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کیا گیا، انہیں وہاں مساوات کا حق نہیں ملا۔ ان اقلیتوں کو جو مذہبی بنیادوں پر ظلم و ستم کا شکار ہونے کی وجہ سے ہندوستان آئے انہیں یہاں سہولت نہیں ملی۔

امت شاہ نے کہا کہ پاکستان میں پہلے 20 فیصد اقلیت تھے لیکن آج صرف 3 فیصد ہی باقی رہ گئے ہیں، اس بل کے ذریعے ہندو، جین، سکھ، بودھ، عیسائی اور پارسی مہاجرین کو رعایت فراہم کی جائے گی۔


ادھر، ملک بھر کے مسلمانوں میں شہریت ترمیمی بل کے تئیں بے چینی کا عالم ہے۔ مسلمانوں کا خیال ہے کہ یہ بل این آر سی کے لئے پس منظر تیار کرنے کے لئے لایا گیا ہے۔ دراصل امت شاہ علی الاعلان یہ کہہ رہے ہیں کہ این آر سی (نیشنل رجسٹر فار سٹیزنشپ) کا نفاذ ملک بھر میں ہو کر رہے گا! ایسے حالات میں مسلمانوں کا خیال ہے کہ اگر کوئی ہندو این آر سی سے باہر ہوگا تو اسے نئے شہریت قانون کے ذریعے راحت دے دی جائے گی لیکن مسلمانوں کی کوئی سماعت نہیں ہوگی۔

تاہم، مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ پارلیمان میں کہہ چکے ہیں کہ شہریت ترمیمی بل مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لئے نہیں لایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ملک تقسیم نہ ہوتا اور یہ تقسیم مذہب کی بنیاد پر نہ ہوئی ہوتی تو آج اس بل کو لانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

دریں اثنا، شہریت میں ترمیم کے حوالہ سے کئی قانونی سوالات بھی اٹھائے جا رہی ہیں۔ ماہرین قانون کا خیال ہے کہ یہ قانون ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 14 (مساوات کے حق) کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ سابق لوک سبھا سکریٹری اور قانونی ماہر پی ڈی ٹی اچاریہ نے بھی اس قانون پر سوال اٹھائے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’جیسا کہ اب بل ابھی نظر آ رہا ہے وہ صرف آرٹیکل 14 ہی نہیں بلکہ آرٹیکل 5 اور آرٹیکل 11 کی بھی خلاف ورزی کرتا ہے، جوکہ شہریت کے حق کی وضاحت کرتے ہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔