شہریت قانون: جامعہ-اے ایم یو طلبا پر پولس بربریت کے خلاف ملک بھر میں تحریک تیز

جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ یونیورسٹی میں طلبا نے شہریت قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا تھا جن پر پولس نے مظالم ڈھائے۔ اس سلسلے میں داخل ایک عرضی پر سپریم کورٹ آج سماعت کرے گا۔

سوشل میڈیا 
سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

دہلی سے لے کر کولکاتا تک، بی ایچ یو سے لے کر آئی آئی ٹی مدراس تک اور احمد آباد سے لے کر ممبئی تک شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت ہو رہی ہے۔ اتوار کو جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبا پر پولس کارروائی کے خلاف جو ناراضگی پیر کے روز سڑکوں پر نظر آئی اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ پورے ملک میں متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف آوازیں تیز ہو گئی ہیں اور لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ یہ مظاہرے ہنوز جاری ہیں اور ہر ریاست میں ہو رہے ہیں۔

پیر کے روز جامعہ علاقے میں عام شہریوں نے بھی طلبا کے حق میں آواز بلند کرنے کے ساتھ ساتھ سڑکوں پر نکل کر شہریت ترمیمی قانون کے خلاف بھی نعرے بازی کی۔ انگریزی روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ میں شائع خبروں کے مطابق اس احتجاجی مظاہرہ کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کے پتلے نذر آتش بھی کیے گئے۔


قابل غور ہے کہ اتوار کو جامعہ میں شروع ہوا احتجاجی مظاہرہ دیر رات دہلی پولس ہیڈکوارٹر پر جا کر ختم ہوا تھا اور طلبا کی اس تحریک کی وجہ سے حراست میں لیے گئے جامعہ کے سبھی بچوں کو دیر رات بغیر کوئی کیس درج کیے چھوڑنا پڑا تھا۔ جامعہ طلبا کی اس مہم میں جے این یو اور دہلی یونیورسٹی کے طلبا کے ساتھ ساتھ اساتذہ اور عام شہری بھی شامل ہوئے تھے۔ اس احتجاجی مظاہرے کی گونج سیاسی حلقوں میں اب بھی صاف سنائی دے رہی ہے۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ نے کولکاتا میں عظیم الشان ریلی کی جس میں طلبا کے مظاہرے کا تذکرہ کیا اور ملک کی راجدھانی دہلی میں کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے انڈیا گیٹ پر سینکڑوں طلبا اور سماجی کارکنان کے ساتھ دھرنا دیا۔

اس دوران سپریم کورٹ میں پولس بربریت کا معاملہ پہنچ چکا ہے جس پر آج عدالت عظمیٰ میں سماعت ہوگی۔ حالانکہ عرضیوں میں فوری کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن چیف جسٹس ایس اے بوبڈے نے یہ کہہ کر سماعت منگل تک کے لیے ملتوی کر دی کہ جب تک ہنگامہ نہیں رکتا سماعت کرنا ممکن نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وہ طالب علم ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیں گے۔


دوسری طرف جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر نجمہ اختر نے پورے واقعہ کی جانچ اعلیٰ سطحی کمیٹی سے کرائے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔ پیر کے روز پریس کانفرنس میں انھوں نے کہا کہ پولس کارروائی میں 200 سے زائد طلبا و طالبات زخمی ہوئے ہیں جسے کسی بھی حال میں برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے کہا کہ پولس نے جس طرح کیمپس میں گھس کر توڑ پھوڑ کی اور طلبا کے ساتھ ساتھ اساتذہ پر بھی حملہ کیا، وہ قابل مذمت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔