چیف جسٹس بی آر گوئی کی مدتِ کار مکمل، بولے ’ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی سرکاری عہدہ قبول نہیں کروں گا‘

چیف جسٹس بی آر گوئی سبکدوش، بولے ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی سرکاری عہدہ قبول نہیں کریں گے۔ آزاد عدلیہ، ریزرویشن میں کریمی لیئر، سوشل میڈیا کے اثرات اور مستقبل کی سمت پر بھی اظہارِ خیال کیا

<div class="paragraphs"><p>چیف جسٹس بی آر گوئی / آئی اے این ایس</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: ہندوستان کے 52ویں چیف جسٹس (سی جے آئی) بی آر گوئی نے اپنا مقررہ دورانیہ مکمل کر لیا ہے اور اتوار کو وہ باقاعدہ طور پر اپنے عہدے سے سبکدوش ہو رہے ہیں۔ سبکدوشی سے عین قبل منعقد ہونے والی الوداعی تقریب میں انہوں نے مختلف اہم سوالات، عدلیہ کے بارے میں پھیلی غلط فہمیوں اور مستقبل کے منصوبوں پر کھل کر اظہارِ خیال کیا۔ چیف جسٹس نے واضح طور پر کہا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ کسی بھی طرح کے سرکاری عہدے کو قبول نہیں کریں گے۔ ان کے مطابق انصاف کی ذمہ داری نبھانے کے بعد سرکاری منصب لینا مناسب روایت نہیں ہے اور وہ اس اصول پر قائم رہیں گے۔

اپنے مستقبل کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر بی آر گوئی نے بتایا کہ وہ پہلے دس دن آرام کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس کے بعد اپنی آئندہ سمت کا تعین کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ سماجی خدمت ان کے خون میں شامل ہے اور وہ خاص طور پر قبائلی علاقوں میں فلاحی سرگرمیوں کے لیے وقت نکالنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق پسماندہ خطوں میں بنیادی سہولتوں، تعلیم اور انصاف تک رسائی جیسے شعبوں میں بہت کام کیے جانے کی ضرورت ہے اور وہ اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔

آزادیٔ عدلیہ کے حساس موضوع پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ اگر کوئی جج حکومت کے حق میں فیصلہ دے تو اسے غیر آزاد قرار دے دیا جائے۔ انہوں نے واضح کیا کہ عدالتی فیصلے قانون اور دستور کی بنیاد پر لیے جاتے ہیں اور کسی بھی فیصلے کو سیاسی زاویے سے جانچنا مناسب نہیں۔ ان کے مطابق عدلیہ کی آزادی ایک بنیادی قدر ہے اور وہ اس کے تحفظ کے لیے ہمیشہ پرعزم رہے ہیں۔


چیف جسٹس بی آر گوئی نے ایس سی اور ایس ٹی ریزرویشن میں کریمی لیئر نافذ کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ حقیقی مستحقین تک خصوصی رعایت پہنچ سکے اور وہ طبقات جو اب بھی سماجی اور معاشی طور پر شدید پسماندگی کا شکار ہیں، انہیں سب سے زیادہ فائدہ ملے۔ ان کے مطابق اس بحث کو جذبات کے بجائے حقائق اور اعداد کے ساتھ دیکھنا چاہیے۔

سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثرات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ آج ایک سنجیدہ مسئلہ بنتا جا رہا ہے، کیونکہ اکثر ایسی باتیں بھی ان کے نام سے منسوب کر دی جاتی ہیں جو انہوں نے کہی ہی نہیں ہوتیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ صرف عدلیہ تک محدود نہیں بلکہ حکومت، آئینی اداروں اور عوامی شخصیات سب اس سے متاثر ہو رہی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔