ہریانہ میں شرپسندوں نے مسجد کی دیوار گرائی، نمازیوں کو دھمکایا

ہریانہ کے کرنال میں درجن بھر شرپسند عناصر نے مسجد میں نماز ادا کر رہے لوگوں کو جان سے مارنے کی دھمکی دی اور اذان و نماز بند کرنے کو کہا۔ اس دوران انھوں نے مسجد کی کچی دیوار کو بھی نقصان پہنچایا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

ہریانہ کے کرنال میں شرپسند ہندو گروپ کے ذریعہ مسجد میں گھس کر نمازیوں کے ساتھ مار پیٹ کرنے اور مسجد کو نقصان پہنچانے کا ایک نیا معاملہ سامنے آیا ہے۔ اس واقعہ کے بعد علاقے کے مسلمانوں میں خوف و دہشت کا ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق کرنال کے نیول گاؤں واقع مسجد میں جب مسلم طبقہ کے لوگ نماز ادا کر رہےتھے اسی درمیان درجن بھر نامعلوم افراد مسجد میں گھس گئے اور نمازیوں کے ساتھ بدزبانی کرنے لگے۔ شرپسند عناصر کے ذریعہ ہنگامہ آرائی کے سبب مسلمانوں کو نماز توڑنی پڑی اور وہ غنڈہ صفت افراد کو سمجھانے کی کوشش کرنے لگے، لیکن اس کا ان پر کوئی اثر نہیں پڑا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا

کچھ نیوز ویب سائٹ پر شائع خبروں کے مطابق شرپسند عناصر مسلمانوں کو مسجد میں نماز نہ پڑھنے کی دھمکی دے رہے تھے اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اگر اذان یا نماز کی آواز مسجد سے آئی تو پھر اس کا برا انجام بھگتنے کے لیے تیار رہیں۔ بدمعاشوں نے اس درمیان مسجد میں اینٹ کی کچی دیواروں کو بھی گرا دیا اور وہاں لگے اسپیکر کے تار کوتوڑ دیا۔ اس واقعہ سے مسجد میں موجود نمازیوں نے پولس کی مدد لینے میں ہی عافیت سمجھی اور سبھی اپنی نماز درمیان میں ہی چھوڑ کر کنج پورا پولس تھانہ پہنچے اور پولس کو حقیقت حاصل سے واقف کرایا۔

شکایت ملنے کے بعد پولس نے اس معاملے کی تحقیق شروع کر دی ہے۔کنج پورا تھانہ انچارج راج کمار رنگا کا کہنا ہے کہ معاملے کی حقیقت معلوم کی جا رہی ہے اور اس معاملے میں جو بھی ملزم ہوگا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ پولس کے ذریعہ بھروسہ دلائے جانے کے بعد اقلیتی طبقہ کو اطمینان ضرور حاصل ہوا ہے لیکن ان میں خوف کا ماحول برقرار ہے۔ چونکہ شر پسند عناصر نے مسلمانوں کے ساتھ مسجد میں گالی گلوچ اور جان سے مارنے کی دھمکی تک دی ہے اس لیے اقلیتی طبقہ کسی ناخوشگوار واقعہ کے اندیشہ سے پریشان ہے۔

ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق شر پسند عناصر مائک سے اذان دیے جانے کو ایشو بنا رہے تھے جب کہ مسلم سماج کے لوگوں کا کہنا ہے کہ جس وقت بدمعاش مسجد میں گھسے اس وقت اسپیکر بند تھا اور ویسے بھی اذان کے لیے کچھ دیر ہی مائک کا استعمال ہوتا ہے۔ ساتھ ہی مسلمانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اذان کے وقت بھی اسپیکر کی آواز کو کافی کم رکھا جاتا ہے۔

مقامی مسلمانوں نے اس معاملے میں گاؤں کے ہی کچھ لوگوں کے شامل ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ علاقے میں مذہبی ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کے تحت اس طرح کی کوششیں کی جا رہی ہیں کیونکہ طویل مدت سے یہاں پر مسلم سماج کے لوگ نماز پڑھ رہے ہیں اور اذان بھی مائک سے ہی دی جاتی رہی ہے لیکن ابھی تک کسی کو کوئی پریشانی نہیں تھی۔اقلیتی طبقہ کے لوگ اس بات کو لے کر پریشان ہیں کہ ماحول خراب کرنے والے لوگ مٹھی بھر ہی ہوتے ہیں ، لیکن اس سے امن و امان ختم ہو جاتا ہے اور آپسی بھائی چارے کو بھی زبردست نقصان پہنچتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔