دلبدل نے تبدیل کی سیتا پور کی سیاسی تصویر

اودھ خطے کے اس علاقے میں پرینکا گاندھی کی سرگرمی کی بنا پر کانگریس کو اس کے حق میں تصویر بدلنے کا اعتماد ہے۔

فائل تصویر آئی اے این ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس
user

یو این آئی

اترپردیش میں آئند ہ سال ہونے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر ضلع سیتاپور کی 9 اسمبلی سیٹوں پر اس بار تمام پارٹیوں کے لیڈروں کے پارٹی تبدیل کرنے سے انتخابی صف بندی میں بھی کافی تبدیلی آگئی ہے۔

اسمبلی کے 2017کے انتخابات میں سیتاپور ضلع کی سات اسمبلی سیٹوں پر بی جے پی اور ایک ایک سیٹ پر ایس پی اور بی ایس پی کے امیدوار منتخب ہوئے تھے۔ ضلع میں سب سے زیادہ سیٹیں جیتنے والی بی جے پی سے ہی اراکین کے دلبدل کا آغاز ہوا ہے۔


سیتاپور اسمبلی حلقے سے سال 2017 کے انتخابات میں بی جے پی کے راکیش راٹھور ایس پی کے امیدوار رادھے شیام جیسوال کو ہرا کر ایم ایل اے منتخب ہوئے تھے۔ کورونا کے دوران انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کی تالی تھالی بجانے جیسی مہم کی کھل کر تنقید کر کے اپنے مستقل کے ارادوں کو واضح کردیا تھا۔ اس کے بعد بی جے پی نے انہیں حاشیے پر ڈال دیا او ر اب وہ ایس پی کے خیمے میں چلے گئے۔

فی الحال ایس پی کے سامنے راٹھور کو امیدوار بنانے کا سوال کھڑا ہوگیا ہے۔ کیونکہ سابق ایس پی امیدوار رادھے شیام جیسوال نے بھی اپنی انتخابی مہم تیز کردی ہے۔ ایس پی اور بی جے پی کے پتے کھلنے کے انتظار میں باقی سیاسی پا رٹیاں ابھی خاموش ہیں۔


وہیں ضلع کی دوسری اسمبلی سیٹ سیوتا سے سال 2017 میں بی جے پی کی گیان تیواری نے جیت درج کی تھی۔ انہوں نے بی ایس پی کے محمد نسیم کو شکست سے دو چار کیا تھا۔سیوتا سیلاب سے ہمیشہ متاثر رہتا ہے۔ یہاں کی شاردا اور گھاگھراندی کی سیلات میں کٹان کو روکنے کے لئے ایم ایل اے کافی سرگرم رہے۔ لیکن مقامی افراد کو متوقع راحت نہ ملنے کی وجہ سے بی جے پی کے چیلنجز میں اضافہ ہوگیا ہے۔
لہر پور اسمبلی سیٹ پر سال 2017 میں بی جے پی کے سنیل ورما نے جیت حاصل کی تھی۔ یہ اسمبلی سیٹ کرمی اور مسلم اکثریتی سیٹ ہے۔ یہاں پر شاردا اور گھاگھرا ندی کے سیلاب کا اثر تورہا لیکن ایم ایل اے سنیل ورما لگاتار علاقے کا دورہ کرتے رہے اور سیلاب متاثرین کے مسائل کو حل کرنے میں پیش پیش رہے۔ یہاں کا اہم مسئلہ سیلاب کے علاوہ کارخانوں کا نہ ہونا بھی رہا ہے۔ یہاں بن کر کاروباری کافی ہیں۔

بسواں اسمبلی حلقے سے سال 2017 میں بی جے پی کے مہندر سنگھ یادو نے ایس پی کے افضال کوثر کو شکست سے دو چار کیا تھا۔ یہ علاقہ بھی شاردا، گھاگھر اور کیوانی اور چوکا ندی کے کنارے پر بسا ہوا ہے۔ اس علاقے میں بھی سیلا ب کا قہر اور گنا کسانوں کے بقایا جات کی ادائیگی سب سے اہم مسئلے ہیں۔ ان مسائل پر کسی بھی پارٹی کی حکومت سے راحت نہیں مل پائی ہے۔ لوگوں کو بی جے پی سے کم سے کم گنا کسانوں کے بقایہ جات کی ادائیگی کی توقع تھی لیکن یہ بھی پوری نہیں ہوسکی۔


بی جے پی ضلع کی سبھی نو اسمبلی سیٹوں پر ریاست کی یوگی حکومت کے ذریعہ شروع کئے گئے ترقیاتی کاموں، نظم ونسق میں بہتری اور بہتر بجلی کی فراہمی کو یقینی کرنے کے دعوے کر کے آنے والے انتخابات میں سابقہ انتخابات کے نتائج کو دہرانے کا دعوی کررہی ہے۔ وہی اپوزیشن مہنگائی، بے روزگاری، پٹرول۔ ڈیزل اور رسوئی گیس کی آسمانی چھوتی قیمتوں کو انتخابات کا اہم ایجنڈا پنا کر بی جے پی کو گھیرنے کے لئے کوشاں ہے۔

اودھ خطے کے اس علاقے میں پرینکا گاندھی کی سرگرمی کی بنا پر کانگریس کو اس کے حق میں تصویر بدلنے کا اعتماد ہے۔ وہیں لوگوں کی نظر اس بات پر بھی ٹکی ہے کہ انتخابات میں بی ایس پی کی سیاسی بے عملی کا فائدہ ایس پی، بی جے پی اور کانگریس میں سے کسے ملتا ہے۔


کانگریس کو کمزور کرنے کے لئے جو کہا جاتا ہے وہ ابھی بھی سیاسی ماہرین کہہ رہے ہیں۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ کانگریس کے ووٹ فیصد میں جتنا اضافہ ہوگا ایس پی اور دیگر سیاسی پارٹیاں اتنا ہی کمزور ہوں گی اور اس کا سیدھا فائدہ بی جے پی کو ملے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔