بہار جَل رہا ہے لیکن مرکز نے مغربی بنگال سے رپورٹ طلب کی

مغربی بنگال میں ایک شخص کی موت ضرور ہوئی ، لیکن بہار میں جس طرح اقلیتی طبقہ کی ملکیت کو جلایا گیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ا یسی صورت میں مرکزی حکومت کو بہار سے بھی رپورٹ طلب کرنی چاہیے تھی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

مغربی بنگال کے رانی گنج میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد پر بی جے پی ممتا حکومت پر حملہ بول رہی ہے۔ آسنسول سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ اور مرکزی وزیر بابل سپریو نے ریاستی حکومت کو جہادی حکومت قرار دے دیا ہے۔ اس معاملہ میں مرکز نے ریاستی حکومت سے رپورٹ بھی طلب کی ہے۔

رام نومی کے دن مغربی بنگال اور بہار کے کئی اضلاع سے فرقہ وارانہ تشدد کی خبریں موصول ہورہی ہیں۔ دریں اثنا مرکز کی مودی حکومت نے مغربی بنگال حکومت سے اس تشدد کے تعلق سے رپورٹ طلب کی ہے اور نیم فوجی دستہ بھیجنے کے لئے کہا ہے، لیکن بہار میں اورنگ آباد میں جو کچھ ہوا، یا دیگر اضلاع میں ابھی بھی ہو رہا ہے اس پر کوئی سوال نہیں کیا جا رہا۔ چونکہ بہار میں بی جے پی اور جنتا دل یو کی مشترکہ حکومت ہے۔ جنتا دل یو نے اشاروں اشاروں میں بی جے پی کے لیڈروں سے نظامِ قانون کو خراب نہ کرنے کی بات بھی کہی تھی لیکن دو دنوں تک بہار کا اورنگ آباد جس طرح جلتا رہا، وہ ناقابل فراموش ہے اور ابھی بھی کچھ جگہوں سے تشدد کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔

چونکہ مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کی حکومت ہے اور وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی اس وقت مودی مخالف اتحاد بنانے کے لیے کمربستہ ہیں اس لیے مرکزی حکومت کا مغربی بنگال حکومت سے رپورٹ طلب کرنا کچھ اور ہی اشارہ کر رہا ہے۔ بی جے پی ممبر پارلیمنٹ بابل سپریو اپنے ٹوئٹ میں کہتے ہیں کہ ’’وہ جہادی حکومت کو دکھا دیں گے کہ بنگال کی روح ابھی زندہ ہے۔‘‘ سپریو نے کہا کہ ریاستی حکومت کو رانی گنج میں سنٹرل فورس کو تعینات کرنے کا کام شروع کرنا چاہیے تاکہ حالات کو قابو میں کیا جا سکے کیونکہ مقامی لوگوں کا پولس انتظامیہ پر یقین نہیں ہے۔ سپریو نے فرقہ وارانہ تشدد کے بارے میں مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ سے فون پر بات بھی کی۔

اس سلسلے میں ممتا بنرجی کی پارٹی ترنمول کانگریس نے بی جے پی پر تشدد بھڑکانے کا الزام عائد کیا ہے۔ انھوں نے واضح لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ رام کے نام پر غنڈہ گردی برداشت نہیں کی جائے گی۔ رام نومی کے جلوس سے متعلق ممتا بنرجی نے پہلے سے ہی بھگوا طاقتوں کو متنبہ کر دیا تھا کہ وہ ہتھیاروں کے ساتھ جلوس نہ نکالیں اور پولس انتظامیہ نے بھی ایسا کرنے سے منع کیا تھا لیکن بجرنگ دل اور آر ایس ایس کارکنان نے قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اپنی منمانی کی جس کی وجہ سے تشدد کے واقعات سرزد ہوئے۔ ایک شخص کی موت اور کئی پولس والوں کے زخمی ہونے کے بعد پولس انتظامیہ اور ممتا بنرجی نے بھی قصورواروں کے خلاف کارروائی کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور اس سلسلے میں جانچ بھی شروع ہو چکی ہے۔ اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ مغربی بنگال حکومت مرکزی حکومت کو کیا رپورٹ پیش کرتی ہے۔

دوسری طرف بہار کا بھاگلپور، اورنگ آباد، سمستی پور اور مونگیر میں فرقہ وارانہ کشیدگی ابھی بھی موجود ہے۔ اقلیتی طبقہ کی دکانیں جلائی گئی ہیں اور ان کے مکانوں پر حملے کیے گئے ہیں۔ اب بھی رات کے وقت اقلیتی طبقہ میں خوف کا عالم دیکھنے کو مل رہا ہے۔ لیکن پولس نے دعویٰ کیا ہے کہ حالات قابو میں ہیں۔ اورنگ آباد میں فساد کے بعد سینئر پولس افسر کا کہنا ہے کہ حالات ٹھیک ہیں اور انھوں نے سبھی لوگوں سے اپیل کی ہے کہ افواہ پر دھیان نہ دیں۔ انھوں نے قصورواروں کے خلاف کارروائی کیے جانے کی بات بھی کہی لیکن 125 لوگوں کی گرفتاری کے بعد مزید کوئی پیش رفت دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے بھی اس سلسلے میں نتیش حکومت سے کوئی سوال نہیں کیا ہے۔ حالانکہ مغربی بنگال کے مقابلے بہار میں مالی نقصان بہت زیادہ ہوا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 28 Mar 2018, 5:09 PM