نوکرشاہوں پر کنٹرول سے متعلق مرکز کے آرڈیننس کو دہلی حکومت نے بتایا غیر آئینی، سپریم کورٹ میں کیا چیلنج

قومی راجدھانی میں نوکرشاہوں پر کنٹرول کے سلسلے میں مرکز کے ذریعہ جاری آرڈیننس کو دہلی حکومت نے سپریم کورٹ میں چیلنج پیش کیا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>نریندر مودی (دائیں) اور اروند کیجریوال</p></div>

نریندر مودی (دائیں) اور اروند کیجریوال

user

قومی آوازبیورو

مرکز اور دہلی حکومت کے درمیان چل رہی لڑائی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ اختیارات کی یہ جنگ ایک بار پھر سے عدالت پہنچ گئی ہے۔ دہلی کی کیجریوال حکومت نے قومی راجدھانی میں نوکرشاہوں پر کنٹرول سے متعلق مرکز کے ذریعہ جاری آرڈیننس کو سپریم کورٹ میں چیلنج پیش کر دیا ہے۔

دہلی کی عام آدمی پارٹی حکومت نے ایڈووکیٹ شادان فراست اور رشیکا جین کے ذریعہ سے داخل عرضی میں 19 مئی کو نوٹیفائی قومی راجدھانی علاقہ دہلی حکومت (ترمیم) ایکٹ 2023 کے آئینی جواز کو چیلنج پیش کیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ آرڈیننس آرٹیکل 239 اے اے میں قومی راجدھانی علاقہ کے لیے مخصوص وفاقی، جمہوری حکومت کے منصوبہ کی خلاف ورزی کرتا ہے۔


عرضی میں کہا گیا ہے کہ آرڈیننس قومی راجدھانی علاقہ دہلی حکومت (جی این سی ٹی ڈی) میں زیر ملازم سول سرونٹس پر کنٹرول جی این سی ٹی ڈی سے لے کر غیر منتخب لیفٹیننٹ گورنر کو فراہم کرتا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ’’یہ ہندوستانی آئین میں ترمیم کیے بغیر ایسا کرتا ہے، خاص طور سے آئین کے آرٹیکل 239 اے اے میں، جس سے یہ بنیادی ضرورت پیدا ہوتی ہے کہ سروسز کے سلسلے میں طاقت اور کنٹرول منتخب حکومت کے پاس ہونا چاہیے۔‘‘

سپریم کورٹ کی پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے 11 مئی کو فیصلہ سنایا کہ یہ ماننا مثالی ہے کہ جمہوری طور سے منتخب کی گئی دہلی حکومت کا اپنے افسران پر کنٹرول ہونا چاہیے اور ایل جی نظامِ قانون، پولیس اور اراضی کے علاوہ ہر چیز میں منتخب ہوئی حکومت کی صلاح ماننے کے لیے مجبور ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے اس بات پر زور دیا کہ اگر حکومت اپنی خدمت میں تعینات افسران پر کنٹرول اور حساب رکھنے میں اہل نہیں ہے، تو مقننہ کے ساتھ ساتھ عوام کے تئیں اس کی ذمہ داری کم ہو جاتی ہے۔


تقریباً ایک ہفتہ بعد مرکزی حکومت 19 مئی کو قومی راجدھانی سول سروس اتھارٹی نامی ایک اسٹینڈنگ اتھارٹی کے قیام کے لیے ایک آرڈیننس لائی جس کے چیف دہلی کے وزیر اعلیٰ کے ساتھ ساتھ چیف سکریٹری اور چیف سکریٹری برائے داخلہ ہوں گے جو ٹرانسفر پوسٹنگ، وجلنس اور دیگر متعلقہ معاملات کے سلسلے میں دہلی ایل جی کو سفارشات کریں گے۔ نااتفاقی کی حالت میں ایل جی کا فیصلہ آخری ہوگا۔

دہلی حکومت نے اپنی عرضی میں کہا کہ ’’آرڈیننس ایگزیکٹیو حکم کی ایک غیر آئینی پریکٹس ہے جو آرٹیکل 239اے اے میں این سی ٹی ڈی کے لیے مخصوص وفاقی، جمہوری حکومت کے منصوبہ کی خلاف ورزی کرتا ہے، واضح طور سے منمانا ہے اور قانونی طور سے 11 مئی کے اس عدالت کی آئینی بنچ کے فیصلے کو خارج کرتا ہے۔‘‘


دہلی حکومت نے آرڈیننس کو رد کرنے اور قومی راجدھانی علاقہ دہلی حکومت ایکٹ، 1991 کی دفعہ 3اے کو بھی رد کرنے کی ہدایت دینے کا مطالبہ کیا، جسے قومی راجدھانی علاقہ دہلی حکومت (ترمیمی) آرڈیننس 2023 کے ذریعہ غیر آئینی بتایا گیا تھا۔ مرکز نے 11 مئی کے فیصلے کا تجزیہ کرنے کے لیے 20 مئی کو سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔