سی بی ایس ای پیپر لیک: قصورواروں سے پہلے بچوں کو ملی سزا!

ایک طرف پیپر لیک معاملے پر سی بی ایس ای اور مرکزی حکومت کی خوب بدنامی ہو رہی ہے تو دوسری جانب طلبا اس بات سے پریشان ہیں کہ دوبارہ امتحان سر پر سوار ہو گیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تنویر احمد

سی بی ایس ای بورڈ نے دسویں درجہ کے ریاضی اور بارہویں درجہ کے اکنامکس سبجیکٹ کا پرچہ دوبارہ لینے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس فیصلے نے طلبا میں ایک ہنگامی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ 26 مارچ کو ہوئے بارہویں کے اکنامکس پرچہ لیک ہونے کی خبر گشت کر رہی تھی اور آج یعنی 28 مارچ کو دسویں کے ریاضی کا پرچہ بھی لیک ہونے کی خبر سوشل میڈیا پر بہت تیزی سے پھیلی اور بورڈ نے اپنی شبیہ کو بچانے کے لیے بوجھ ڈال دیا معصوم طلبا پر۔ جیسے ہی دسویں اور بارہویں کے ایک ایک پرچہ کا امتحان دوبارہ لیے جانے کی خبر پھیلی، امتحان کے بعد خود کو تازہ دم بنانے کے لیے سیر و سیاحت کا منصوبہ بنا چکے بچوں کے تو جیسے ہوش ہی اڑ گئے۔

پیپر لیک معاملے میں بورڈ کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت کی بدنامی سوشل میڈیا پر اتنی ہوئی کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے فروغ انسانی وسائل کے مرکزی وزیر پرکاش جاوڈیکر کو سخت قدم اٹھانے کی ہدایت دے ڈالی۔ آقا کا فرمان ملنے کے بعد انھوں نے بھی قصورواروں کو جلد سے جلد کیفر کردار تک پہنچانے کا اعلان کر دیا۔ لیکن اب تو بچوں کو دوبارہ امتحان دینا ہی ہوگا۔

بچوں کی بڑھی پریشانی اور سی بی ایس ای و مرکزی حکومت کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک سیلاب سا امنڈ گیا ہے اور دہلی ریاستی کانگریس کے صدر اجے ماکن نے بھی اپنے بیٹے اوجسوی کا درد بیان کیا ہے جس نے دسویں کا امتحان دیا تھا۔ انھوں نے ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’میرا بیٹا اوجسوی نے خوب محنت سے پڑھائی کی اور آج سی بی ایس ای دسویں درجہ کا ریاضی کا امتحان دے کر خوشی خوشی باہر نکلا، لیکن یہ خوشی دیرپا ثابت نہیں ہوئی۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’ریاضی کا پیپر لیک ہونے اور ’لیکنگ گورنمنٹ‘ کے ذریعہ امتحان دوبارہ لیے جانے کی خبر سن کر وہ بہت مایوس ہوا۔‘‘

سوشل میڈیا پر تو بہت باتیں ہو رہی ہیں لیکن ’قومی آواز‘ نے بچوں سے دوبارہ امتحان کے متعلق نظریہ جاننے کی کوشش کی۔ دہلی کے بال بھون پبلک اسکول سے دسویں کا امتحان دینے والے ہیمانت نے ’قومی آواز‘ سے بات کرتے ہوئے غمگین انداز میں کہا کہ ’’امتحان بہت اچھا گیا تھا۔ دوبارہ امتحان کی تیاری کا سوچ کر ٹینشن ہو رہا ہے۔ گھومنے پھرنے کا جو منصوبہ بنایا تھا، وہ بھی ختم ہو گیا۔‘‘ اے ایس این سینئر سیکنڈری اسکول سے امتحان دینے والی سلونی بھی پریشان ہے اور بورڈ کے اس فیصلہ سے مایوس بھی۔ وہ کہتی ہے کہ ’’یہ ہم لوگوں کے ساتھ اچھا نہیں ہوا۔ اگر پرچہ لیک ہوا ہے تو اس میں ہماری غلطی نہیں تھی اس لیے سزا ہمیں نہیں ملنی چاہیے تھی۔‘‘ جب ’قومی آواز‘ نے ان سے کہا کہ آپ کو مزید تیاری کا وقت مل رہا ہے آپ اور بہتر کر سکتی ہیں، تو اس نے کہا کہ ’’میر امتحان بہت اچھا گیا تھا، پتہ نہیں اب کیسا جائے گا۔ میں نے توبہت سارے پروگرام بھی بنا لیے تھے، لیکن دوبارہ امتحان کی خبر نے سب برباد کر دیا۔‘‘

الکا انٹرنیشنل اسکول سے دسویں کی پڑھائی کرنے والی کھل کھل بھاشا نندنی تو پیپر لیک کرنے والوں پر ہی ناراض نظر آتی ہیں۔ ’قومی آواز‘ سے وہ کہتی ہیں کہ ’’کچھ لوگوں کی وجہ سے ہماری پریشانی بڑھ گئی۔ ان کی غلطیوں سے امتحان کے بعد کا پورا شیڈول خراب ہو گیا۔‘‘ کھل کھل اس بات سے بھی گھبرائی ہوئی ہیں کہ کہیں اس مرتبہ پرچہ زیادہ مشکل نہ ہو۔

بارہویں کلاس کے بچوں سے جب ’قومی آواز‘ نے بات کرنے کی کوشش کی تو ایک دوسرا ہی رُخ سامنے آیا۔ کوئنس میری میں پڑھنے والی اکنامکس کی طالبہ اغنیٰ ثبات کہتی ہیں کہ ’’آؤٹنگ کا شیڈول ضرور متاثر ہوا ہے لیکن پیپر لیک ہونے کا فائدہ کچھ طلبا نے اٹھایا تھا اس لیے دوبارہ امتحان سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’’اسکول کی کچھ ساتھی بچیاں بورڈ کے اس فیصلے سے کافی خوش ہیں اور وہ کہہ رہی ہیں کہ پرچہ لیک ہونے کے بعد دوبارہ امتحان ٹھیک ہے، لیکن اس میں دیر نہیں کی جانی چاہیے۔‘‘

ڈی اے وی اسکول سے بارہویں (اکنامکس) کی تعلیم حاصل کرنے والے پرانی دہلی کے معاذ امین تو بورڈ کے اس فیصلے سے بے انتہا خوش ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میرا امتحان بہت اچھا گیا تھا، لیکن جب میں ہال سے باہر نکلا تو کئی بچوں نے بتایا کہ پرچہ انھیں ایک دن پہلے ہی مل گیا تھا۔ یہ سن کر میرے ہوش اڑ گئے اور مایوسی ہوئی کہ کمزور بچے بھی ان سے زیادہ نمبر لے آئیں گے۔‘‘ معاذ مزید کہتے ہیں کہ ’’دوبارہ امتحان کی خبر سے میں بہت خوش ہوں۔ مایوسی صرف کمزور بچوں کو ہی ہوگی کیونکہ ذہین بچے امتحان سے کبھی نہیں بھاگتے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 28 Mar 2018, 9:06 PM