سی بی آئی کو نہیں ملا کوئی ثبوت، ستیندر جین کے خلاف عدالت نے بدعنوانی کا مقدمہ بند کیا

4 سال کی تحقیقات کے بعد سی بی آئی نے پایا کہ محکمہ کی فوری ضرورتوں کے سبب پیشہ وروں کی بھرتی ضروری تھی۔ ایجنسی نے کہا کہ اسے بدعنوانی، مجرمانہ سازش، ناجائز فائدہ یا ذاتی فائدے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

<div class="paragraphs"><p>ستیندر جین، تصویر آئی اے این ایس</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

دہلی کے راؤز ایونیو کورٹ نے پیر کو عام آدمی پارٹی کے لیڈر ستیندر جین کے خلاف جاری بدعنوانی کا مقدمہ بند کر دیا ہے۔ سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کو اس معاملے میں کسی بھی طرح کے غیر قانونی فائدے کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ راؤز ایونیو کورٹ کے خصوصی جج (پی سی ایکٹ) دگ ونے سنگھ نے سی بی آئی کی کلوزر رپورٹ قبول کر لی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 4 سال کی تحقیقات کے بعد بھی ستیندر جین کے خلاف بدعنوانی کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’’جو الزام عائد کیے گئے ہیں اور جو حقائق کا پس منظر ہے وہ مزید تفتیش یا کارروائی شروع کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ قانون واضح طور پر کہتا ہے کہ شک ثبوت کی جگہ نہیں لے سکتا۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کسی کو قصوروار ٹھہرانے کے لیے محض شک کافی نہیں ہے۔ کارروائی آگے بڑھانے کے لیے کم از کم مضبوط ثبوت کا ہونا ضروری ہے۔‘‘


واضح ہو کہ ستیندر جین پر الزام تھا کہ جب وہ دہلی حکومت میں پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ (پی ڈبلیو ڈی) کے وزیر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے، تو اس وقت انہوں نے آؤٹ سورسنگ کے ذریعہ پی ڈبلیو ڈی کے لیے 17 رکنی صلاح کاروں کی ٹیم کی تقرری کو منظور دی تھی۔ ایسا کر کے ستیندر جین نے معیاری سرکاری بھرتی کے عمل کو نظر انداز کر دیا تھا۔ اس بارے میں ویجیلنس ڈپارٹمنٹ نے ایک شکایت درج کی تھی جس کی بنیاد پر مئی 2019 میں ستیندر جین کے خلاف ایف آئی آر دردج کی گئی تھی۔

4 سال کی تحقیقات کے بعد سی بی آئی نے پایا کہ محکمہ کی فوری ضرورتوں کے سبب پیشہ وروں کی بھرتی ضروری تھی اور بھرتی کا عمل بھی شفاف اور مسابقتی تھا۔ ایجنسی نے کہا کہ اسے بدعنوانی، مجرمانہ سازش، ناجائز فائدہ یا ذاتی فائدے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ کلوزر رپورٹ پر غور کرنے کے بعد عدالت نے اسے قبول کر لیا اور مقدمہ کو بند کر دیا۔ ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ اگر کسی کے خلاف کوئی نیا ثبوت ملتا ہے تو سی بی آئی اس معاملے کی مزید تفتیش کے لیے آزاد ہوگی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔