بابری مسجد انہدام معاملہ میں سی بی آئی عدالت کا فیصلہ مایوس کن: دارالعلوم دیوبند

مولانا ابوالقاسم نعمانی نے کہا کہ "بابری مسجد فیصلہ کے دوران ملک کی سب سے بڑی عدالت نے تسلیم کیا تھا کہ 1992 میں مسجد گرایا جانا غیرقانونی تھا، اس کے باوجود بھی آج ایسا فیصلہ سامنے آنا سمجھ سے پرے ہے"

دارالعلوم دیوبند
دارالعلوم دیوبند
user

عارف عثمانی

ایودھیا میں 6 دسمبر 1992 کو مسجد شہید کے معاملے میں آج سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے فیصلے کو دارالعلوم سمیت دیگر علماءنے مایوس کن قرار دیا۔ عالمی شہرت یافتہ ادارہ دارالعلوم دیوبند نے اس فیصلہ پر مایوسی کا اظہار کیا۔ ادارہ کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کہا کہ 6 دسمبر 1992 کو دنیا نے اس منظر کو دیکھا تھا، اس کے باوجود اس طرح کا فیصلہ آنا افسوسناک ہے۔

مولانا ابوالقاسم نعمانی نے کہا کہ 9نومبر کو آئے بابری مسجد کے فیصلہ کے دوران ملک کی سب سے بڑی عدالت نے یہ تسلیم کیا تھا کہ 1992 میں مسجد کو گرائے جانا غیرقانونی تھا، اس کے باوجود بھی آج ایسا فیصلہ سامنے آنا سمجھ سے پرے ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس فیصلہ سے ہمیں افسوس اور مایوسی ہوئی ہے، دنیا کے سامنے ہمیں اپنی عدالتوں کی شبیہ کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔


فتویٰ آن لائن سروس کے چیئرمین مفتی ارشد فاروقی نے اس تعلق سے کہا کہ دن کے اجالے میں بابری مسجد کو مسمار کیا گیا۔ سی بی آئی نے 49لوگوں کے خلاف سنگین الزامات عائد کئے جن میں سے 17مرگئے اور آج لکھنؤ کی خصوصی عدالت کی رائے بریلی بنچ نے سی بی آئی کے تمام پیش کردہ ثبوتوں کو ناکافی مانتے ہوئے تمام 32 ملزمان کو باعزت بری کردیا۔ عدالت کے فاضل جج نے آڈیو، ویڈیو، اخباری تراشے اور گواہوں کی گواہی کو ناکافی قراریا، یقینا یہ فیصلہ قابل حیرت ہے اور یاد رہے کہ جب تک کسی ملک میں انصاف کی پاسداری قائم رہتی ہے وہ ملک مستحکم بنیادوں پر رہتا ہے، اس لئے انصاف کے حصول کے لئے ممکنہ کوشش جاری رہنی چاہئے۔

مفتی ارشد فاروقی نے کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ اور مسلم تنظیمیں اور انصاف پسند لوگ اس معاملے کو انصاف کے تقاضوں کی تکمیل کے لئے اوپر کی عدالتوں میں لے جائیں گے اور امید ہے کہ انصاف کی تقاضے پورے کئے جائیں گے۔ انہوں نے یہ سوال بھی کیا کہ جس دن بابری مسجد شہید کی گئی وہاں پر یہ سارے ملزمان موجود تھے اور مسجد شہید کی گئی تو آخر مسجد کن لوگوں نے شہید کی اور کس ذریعہ سے شہید کی گئی جو ایک عام آدمی محسوس کرتا ہے اور سوچنے والا سوچتا ہے۔ مولانا نے کہا کہ سی بی آئی کے سارے ثبوت ناکافی قرار دیناحیرت اور تعجب کی بات ہے۔ ا س لئے فاضل جج کے اس فیصلہ کو انصاف حاصل کرنے کے لئے ہندوستان کے دستور کی بقا کے لئے اوپر کی عدالتوں میں انصاف پسند افراد کی طرف سے چیلنج کیا جانا ضروری ہے۔ مومن کانفرنس کے شہر صدر نسیم انصاری ایڈوکیٹ نے کہا کہ موجودہ فیصلہ افسوسناک ہے اور ایک بڑے طبقے کے جذباتوں کو مجروح کرنے والا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس فیصلہ سے ایک بڑے طبقے کو حیرانی اور دکھ ہوا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔