جے این یو کے گمشدہ طالب علم نجیب احمد کا کیس ہوا بند، عدالت نے منظور کر لی سی بی آئی کی کلوزر رپورٹ

ایڈیشنل چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ جیوتی مہیشوری نے سی بی آئی کی کلوزر رپورٹ قبول کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر مستقبل میں اس معاملہ سے متعلق کوئی نیا ثبوت سامنے آیا تو کیس کو دوبارہ کھولا جا سکتا ہے۔‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے گمشدہ طالب علم نجیب احمد کے معاملہ میں دہلی کی راؤز ایونیو کورٹ نے سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کو کیس بند کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ عدالت نے سی بی آئی کی کلوزر رپورٹ کو قبول کر لیا ہے۔ نجیب احمد 15 اکتوبر 2016 سے لاپتہ ہے۔ سی بی آئی نے یہ رپورٹ 2018 میں داخل کی تھی، اس رپورٹ میں سی بی آئی نے کہا تھا کہ نجیب کی تلاش میں کوئی اہم سراغ نہیں ملا ہے۔ ایڈیشنل چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ جیوتی مہیشوری نے 30 جون کو سی بی آئی کی کلوزر رپورٹ قبول کر لی ہے۔ حالانکہ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ اگر مستقبل میں اس معاملہ سے متعلق کوئی نیا ثبوت سامنے آیا تو کیس کو دوبارہ کھولا جا سکتا ہے۔

واضح ہو کہ سی بی آئی نے اکتوبر 2018 میں ہی نجیب جنگ کی گمشدگی کے معاملہ کی تحقیقات بند کر دی تھی، کیونکہ ایجنسی کو نجیب کا پتہ لگانے میں کوئی کامیابی نہیں مل پائی تھی۔ دہلی ہائی کورٹ سے اجازت ملنے کے بعد ایجنسی نے اپنی کلوزر رپورٹ عدالت کے سامنے پیش کی تھی۔ نجیب گمشدگی کے وقت 27 سال کا تھا اور جے این یو کے اسکول آف بایو ٹیکنالوجی میں ایم ایس سی کا طالب علم تھا۔ گمشدگی سے ایک روز قبل 15 اکتوبر 2016 کو جے این یو کے ماہی-مانڈوی ہاسٹل میں اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) سے منسلک کچھ طلبا کے ساتھ اس کی لڑائی ہوئی تھی۔ نجیب کے پراسرار طریقے سے غائب ہونے کے معاملے نے کافی طول پکڑ لیا تھا۔


نجیب کی ماں فاطمہ نفیس نے پہلے اس معاملہ کو ایک سیاست سے متاثر قرار دیا تھا۔ ان کا الزام تھا کہ سی بی آئی اپنے آقاؤں کے دباؤ کے آگے جھک گئی ہے۔ شروع میں اس معاملہ کی تحقیقات دہلی پولیس کر رہی تھی، لیکن بعد میں اسے سی بی آئی کو سونپ دیا گیا تھا۔ دہلی ہائی کورٹ نے 16 مئی 2017 کو نجیب احمد کے لاپتہ ہونے کے معاملہ کی سی بی آئی کو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ اس کے بعد 29 جون 2017 کو سی بی آئی نے نجیب کا سراغ دینے والے کو 10 لاکھ کا انعام دینے کا اعلان کیا تھا، لیکن اس کا کوئی سراغ نہیں مل پایا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔