بریلی: درگاہ اعلی حضرت کے سجادہ نشین کے خلاف مقدمہ، مریدوں کا احتجاج

درگاہ کے سجادہ نشین مفتی احسن رضا خاں کے چچا عثمان رضا خاں عرف انجم میاں نے کوتوالی میں سجادہ نشین سے جان کا خطرہ بتاتے ہوئے ان کے سمیت 250 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرایا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

بریلی: اترپردیش کے بریلی میں واقع درگاہ اعلی حضرت کا اندرونی تنازعہ کھل کر سامنے آگیا ہے۔ درگاہ کے سجادہ نشین مفتی احسن رضا خاں کے چچا عثمان رضا خاں عرف انجم میاں نے جمعہ کی دیر رات کوتوالی میں سجادہ نشین سے جان کا خطرہ بتاتے ہوئے ان کے سمیت 250 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرایا۔ اس سے پہلے سجادہ نشین احسن رضا خاں نے چچا عثمان رضا خاں عرف انجم میاں اور شيران رضا خاں پر مقدمہ درج کرایا تھا۔ ان کا الزام تھا کہ دونوں نے گھر میں گھس کر توڑ پھوڑ اور مارپیٹ کی۔ جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی۔

عثمان رضا خاں عرف انجم میاں نے کوتوالی پولس کو دی گئی تحریر میں کہا ہے کہ احسن رضا خاں ان سگے بھتیجے ہیں۔ دو جون کو انہوں نے نازیبا زبان استعمال کرکے انہیں اور ان کے بیٹے شيران رضا خاں کو مسجد میں موجود تمام لوگوں کے سامنے ذلیل کیا تھا۔ بعد میں جھوٹا واقعہ دکھا کر ان کے بیٹے شيران رضا کے خلاف رپورٹ درج کرا دی۔ اس کے بعد سے ہی احسن رضا خاں اور ان کے ساتھی مسجد میں آتے جاتے وقت انہیں اور ان کے بیٹوں کو جان سے مارنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔


سجادہ نشین کی تحریر پر کوتوالی پولس نے شيران اور ان کے والد عثمان رضا خاں عرف انجم میاں کے خلاف مارپیٹ کا مقدمہ درج کیا تھا۔ تاہم، شيران کے والد نے واقعہ سے انکار کرتے ہوئے الزامات پر افسوس ظاہر کیا ہے۔

درگاہ کے ذرائع نے بتایا کہ یہ واقعہ سنیچر کی رات تقریبا دو بجے کا ہے۔ درگاہ میں واقع رضا مسجد میں قرآن مکمل ہونے کا جشن چل رہا تھا۔ الزام ہے کہ اسی دوران انجم میاں، اپنے بیٹے شيران رضا سمیت چار پانچ نامعلوم افراد کے ساتھ مسجد میں پہنچے۔ اس وقت پروگرام کی صدارت سجادہ نشين کر رہے تھے۔ الزام ہے کہ انجم میاں نے کہا کہ پروگرام کی صدارت میرے صاحبزادے شيران رضا خاں کریں گے۔

مخالفت کرنے پر رات کو یہ لوگ سجادہ نشین کے گھر پہنچ گئے اور فرنیچر توڑ دیا۔ ان کے ساتھ مار پیٹ کرنے لگے۔ جان سے مارنے اور فرضی مقدمے میں پھنسانے کی دھمکی بھی دی۔ انجم میاں کا کہنا ہے کہ وہ چھ جون کی شام ساڑھے سات بجے مسجد سے نماز پڑھ کر باہر نکل رہے تھے۔ مسجد کے باہر تقریبا 200-250 نامعلوم لوگ کھڑے تھے۔ الزام ہے کہ انہیں احسن رضا خاں نے جمع کیا تھا۔ یہ لوگ انہیں دیکھتے ہی گالیاں دینے لگے۔ اتنا ہی نہیں جان سے مارنے کی نیت سے حملہ آور ہو گئے۔ نمازیوں نے انہیں بچایا۔ گھر میں چھپ کر جان بچائی۔ ان کا کہنا ہے کہ خوف کی وجہ سے اپنے گھر سے نہیں نکل رہے ہیں۔ ان کی اور ان کے بیٹوں کی جان کو خطرہ ہے۔


خاندان کی لڑائی میں گزشتہ جمعرات کو سجادہ نشین کے مرید بھی کود پڑے تھے۔ وہ مولانا عثمان رضا خاں کے اس بیان پر بھڑکے نظر آئے، جس میں انہوں نے سجادہ نشین کے کارناموں کو ملک بھر میں بتانے اور ان پر اعلی حضرت کی شان کو ٹھیس پہنچانے کا دعوی کیا۔

سجادہ نشین احسن رضا خاں کے خلاف مقدمہ درج ہونے کی بات جیسے ہی ان کے چاہنے والوں کو معلوم ہوئی تو درگاہ کی گلیاں بھر گئیں۔ لوگ جاننے کے لئے درگاہ پر آنا شروع ہو گئے۔ جمعہ کی دیر رات تک معاملے کو نمٹانے کی کوشش ہوتی رہی لیکن بات نہیں بنی۔ پولس نے سجادہ نشین احسن میاں کے خلاف عثمان رضا خاں عرف انجم میاں کی تحریر پر جیسے ہی مقدمہ درج کیا، یہ اطلاع ان کے چاہنے والوں تک پہنچنا شروع ہو گئی۔ آہستہ آہستہ بات پورے شہر تک پھیل گئی ۔ سجادہ نشين پر مقدمے سے ہر کوئی حیرت میں تھا۔ چونکہ تنازعہ خاندانی تھا، اس وجہ سے کوئی کھل کر کچھ بولنے کو تیار نہیں۔


درگاہ پر سجادہ نشين کے چاہنے والوں کی بھیڑ لگ گئی۔ وہ پولس کی کارروائی سے ناراض نظر آئے۔ پولس سے بات بھی کی گئی لیکن پولس کی جانب سے پیغام صاف تھا کہ ان کے پاس تحریر آئی ہے لہذا انہوں نے مقدمہ درج کر لیا۔ بریلی کے ڈی آئی جی آر کے پانڈے نے بتایا کہ آگے چھان بین کے دوران پتہ چلے گا کہ الزام صحیح ہے یا نہیں۔ اسی کے مطابق کارروائی ہوگی۔ اس کے بعد اب چاہنے والے معاملے کو آپس میں نمٹانے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔ سجادہ نشين کے خلاف انجم میاں کی تحریر پر کوتوالی پولس نے احسن رضا خاں اور 200-250 نامعلوم افراد کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 147، 452، 352، 504، 506 کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔