دو اور ججوں نے چیف جسٹس کو خط لکھا

جب بھی عدلیہ سے وابستہ عوامی اہمیت کے مسائل سامنے آتے ہیں تو اس کے بعد چیف جسٹس کی طرف سے ایک مکمل عدالت قائم کی جاتی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

چیف جسٹس کے خلاف سات پارٹیوں کے ممبران پارلیمنٹ کی جانب سے مواخذہ کا نوٹس دینے کے دو دن بعد سپریم کورٹ کے دو سینئر ججج جسٹس رنجن گوگوئی اور مدن لوكر نے چیف جسٹس کو خط لکھ کر عدالت عظمیٰ کے مستقبل اور ادارے سے وابستہ دیگر مسائل پر مکمل عدالت (فل کورٹ) میں بحث کا مطالبہ کیا ہے۔ حزب اختلاف کا مواخذہ کا نوٹس پیر کے روز نائب صدر جمہوریہ اور راجیہ سبھا کے چیئرمین وینکیا نائیڈو مسترد کر چکے ہیں۔ جسٹس دیپک مشرا اکتوبر ماہ میں سبکدوش ہونے جا رہے ہیں ، اس کے بعد رنجن گوگوئی کے چیف جسٹس مقرر ہونے کے سب سے زیادہ توقعات ہیں کیوں کہ وہ دیپک مشرا کے بعد سب سے سینئر جج ہیں۔

جسٹس دیپک مشرا کو لکھے خط میں کالجیم کے رکن دونوں ججوں نے ان سے مکمل عدالت کی تشکیل کا مطالبہ کیا ہے، جس میں آئینی اور ادارتی معاملات پر بات چیت ہو۔

حالانکہ چیف جسٹس نے ابھی تک اس خط کا جواب نہیں دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق جب پیر کے روز یعنی 23 اپریل کو چائے پر بحث کے دوران سپریم کورٹ کے کچھ ججوں نے پورے کورٹ کا مسئلہ اٹھایا تب چیف جسٹس دیپک مشرا اس پر سنجیدہ نظر نہیں آئے۔ واضح رہے کہ جب عدلیہ سے وابستہ عوامی اہمیت کے مسائل سامنے آتے ہیں تو اس کے بعد چیف جسٹس کی طرف سے ایک مکمل عدالت قائم کی جاتی ہے۔

غورطلب ہے کہ 21 مارچ کو سینئر ججوں میں سے ایک جسٹس جے چیلامیشور نے تمام ججوں کو خط لکھ کر کہا تھا کہ ججوں کی تقرری میں حکومت کی مداخلت پر مکمل عدالت میں بحث ہونی چاہئے۔ انہوں نے یہ خط حکومت کی جانب سے کرناٹک کے اس جج کے خلاف تحقیقات کرانے کے مطالبہ کے بعد لکھا تھا جس کی کالجیم نے ہائی کورٹ میں تعیناتی کی سفارش کی تھی۔ حالانکہ چیف جسٹس نے اس خط کا بھی جواب نہیں دیا ہے۔

جسٹس جے چیلامیشور ہی نہیں بلکہ جسٹس کورین جوزف نے بھی حال ہی میں 9 اپریل کو چیف جسٹس کو خط لکھ کر سات ججوں کی بنچ تشکیل دے کر ججوں کی تقرری کو لے کر کالجیم کی سفارشات پر سماعت کی مانگ کی تھی۔ کالجیم نے جسٹس کے ایم جوزف اور اند و ملہوترا کی سپریم کورٹ میں تقرری کی سفارش کی تھی، لیکن حکومت نے اسے منظوری نہیں دی۔ اس پر جسٹس کروین جوزف نے احتجاج کیا۔ واضح رہے کہ چیف جسٹس کو مسلسل خط لکھنے والے چار جج جنوری میں پریس کانفرنس کر کے سپریم کورٹ میں مقدمات کی تقسیم میں شفافیت نہ ہونے کا الزام عائد کر چکے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔