بشریٰ بانو کی زبردست کامیابی، شادی کے 13 سال بعد آئی پی ایس بننے میں کامیاب

بشریٰ کہتی ہے کہ جو بھی آتا تھا وہ امی ابو سے کہتا تھا کہ اس لڑکی کو کلکٹر بنانا، اب لڑکی کلکٹر تو نہیں بنی مگر پولیس کپتان ضرور بن گئی ہے

بشریٰ ارشد / آس محمد کیف
بشریٰ ارشد / آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

ہندوستان کی مثالی بیٹیوں میں سے ایک بشریٰ ارشد بانو نے کمال کر دکھایا ہے، پیر کے روز سول سروسز کی سیٹوں کی تقسیم کے بعد ان کا آئی پی ایس بننا طے ہو گیا ہے۔ دو بچوں کی ماں بشریٰ نے 13 سال بعد اپنی پڑھائی دوبارہ شروع کی تھی۔ وہ زندگی میں 4 بڑی سرجری برداشت کر کے بھی تین مرتبہ سول سروسز امتحان میں کامیاب ہو چکی ہیں۔

قومی آواز سے بات کرتے ہوئے بشریٰ ارشد بانو نے آئی پی ایس بننے پر خوشی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس مرتبہ وہ آئی پی ایس ہی جوائن کریں گی اور یہی ان کا مقصد تھا۔ بشریٰ اس سے پہلے آئی آر ایس منتخب ہو چکی ہیں۔ وہ یو پی پی ایس سی میں بھی ٹاپ رینکر رہی ہیں، جس میں ان کی چھٹی رینک تھی۔ بشریٰ ارشد اس وقت فیروز آباد میں ایس ڈی ایم صدر کے طور پر تعینات ہیں۔ 2018 میں ان کی رینک 277ویں تھی اور 2020 میں 234ویں رینک حاصل کر کے وہ آئی پی ایس بن گئی ہیں۔

بشریٰ بانو کی زبردست کامیابی، شادی کے 13 سال بعد آئی پی ایس بننے میں کامیاب

بشریٰ ارشد قنوج کی رہائشی ہیں اور ان کا تعلق سورکھ گاؤں سے ہے۔ بشریٰ یو پی ایس سی - 2017 میں ایس ڈی ایم بننے والی اکلوتی مسلم امیدوار تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک ان کی ٹاپ رینک نہیں آئے گی تب تک لڑائی جاری رہے گی۔ بشریٰ نے بغیر کوچنگ کے شادی شدہ ہونے کے بعد بھی نوکری کرتے ہوئے اور چار سرجریوں کا سامنا کرتے ہوئے ملک کے سب سے باوقار امتحان میں اپنے جھنڈے گاڑ دئے ہیں۔ بشریٰ خوش ہیں اور کہتی ہے ’’ہو سکتا ہے کہ ان سب چیزوں کے لئے الگ الگ مثال ہو مگر یہ سبھی مجھ میں سما گئی تو ضد اور بڑھ گئی۔‘‘


بشریٰ کے والد کسان ہیں اور ماں گھریلو خاتون ہیں۔ ایک بھارئی اور بہن بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ والدین بھی گریجویٹ ہیں مگر بشریٰ یقینی طور پر ان کی والدہ شمع کے الفاظ میں غیر معمولی لڑکی ہے۔ بشریٰ نے ساڑھے سترہ سال کی عمر میں ڈگری حاصل کی تھی۔ 20 سال کی عمر ہونے سے پہلے انہوں نے ایم بی اے کی ڈگری کی حاصل کر لی تھی۔ بارہویں تک کی پڑھائی قنوج سے ہی پوری کی اور گریجویٹ کرنے کے بعد کانپور چلی گئیں۔

بشریٰ بتاتی ہیں کہ یو پی ایس سی کا امتحان تو تبھی دینا چاہتی تھی مگر عمر کم پڑ گئی۔ بشریٰ کی والدہ کے مطابق بشریٰ کو ساڑھے چار سال کی عمر میں سیدھے دوسری کلاس میں داخلہ دیا گیا تھا۔ وہ کہتی ہیں، ’’گھر میں اتنا سیکھ گئی تھی کہ کبھی دوسرے مقام پر نہیں آئی۔ بشریٰ کو اول رہنے کی عادت ہے، وہ ہمیشہ ٹاپ کرتی رہی ہے۔‘‘


بشریٰ کہتی ہے کہ جو بھی آتا تھا وہ امی ابو سے کہتا تھا کہ وہ لڑکی کو کلکٹر بنا دیں۔ اب لڑکی کلکتر تو نہیں بنی مگر پولیس کپتان ضرور بن گئی ہے۔ بشریٰ کہتی ہے کہ افسر بننے کا جنون ان کے دماغ پر حاوی ہو گیا تھا، عمر کم ہونے کی وجہ سے یو پی ایس سی کا امتحان نہیں دے پائی تو جے آر ایف کا امتحان دیا تھا۔

بشریٰ نے پہلی ہی کوشش میں جے آر ایف کا امتحان بھی پاس کر لیا تھا اور اے ایم یو سے ڈسٹریس منیجمنٹ میں پی ایچ ڈی کر اپنے نام سے پہلے ڈاکٹر لکھوا لیا۔ یہیں انہوں نے اسمر حسین سے شادی کر لی۔ انجینئر اسمر حسین اور بشریٰ دونوں اس کے بعد سعودی عرب چلے گئے۔ اسمر وہاں یونیورسٹی میں پڑھانے لگے اور بشریٰ ایک کمپنی میں بڑی افسر بن گئیں۔ بہتر نوکری، شاندار تنخواہ کو چھوڑ کر بشریٰ ہندوستان لوٹ آئیں اور شوہر بھی لوٹ آئے۔


بشریٰ کہتی ہیں ’’وطن واپسی کی صرف ایک وجہ تھی حبل الوطنی۔ میں اکثر سوچتی تھی کہ جو علم میں نے ہندوستان میں اپنے ملک کے باشندوں سے سیکھا، میری ہنرمندی کا فائدہ بھی انہی لوگوں کو حاصل ہونا چاہئے، یہ ان کا حق ہے۔‘‘

ان کے شوہر اسمر حسین بتاتے ہیں کہ اس کے بعد انہوں نے کول انڈیا میں ملازمت اختیار کر لی اور ان کے یہاں دو بچوں کی پیدائش ہوئی۔ ان کی اہلیہ کی بڑی سرجری ہوئی۔ دس سال کا عرصہ ہو گیا لیکن اندر سے کلکٹر بننے کی خواہش زور مارتی رہی۔

بشریٰ مزید کہتی ہیں، میں نے ایمانداری سے نوکری کی۔ بطور والدہ اپنا فرض ادا کیا۔ ایک شوہر کا خیال رکھنے والی بیوی بھی بنی۔ لگاتار ہو رہی سرجری سے ہونے والے درد کو بہانہ نہیں بنایا اور ڈپٹی کلکٹر بن گئی۔ اے ایم یو سے پی اچ ڈی کر رہے اسمر حسین علی گڑھ کے ہی رہنے والے ہیں۔ وہ کہتے ہین عادتاً یہ گاڑی میں بھی آگے ہی بیٹھتی تھی، جو ٹھان لیتی ہے وہ ہر قیمت پر کر گزرتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔