نہ زراعت کا اور نہ ہی ملازمت کا ذکر، نرملا کے بجٹ میں بدحال معیشت کی بھی نہیں فکر

بجٹ تقریر کے آخر میں کیے گئے دو اہم اعلانات کی کوئی تشریح وزیر مالیات نے نہیں کی۔ پہلا یہ کہ حکومت کس طرح مالی خسارے کے 3.3 فیصد ہدف پر قائم رہے گی، اور دوسرا پٹرول-ڈیزل پر اضافی بوجھ کیوں؟

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

راہل پانڈے

مرکزی وزیر مالیات نرملا سیتارمن کی سوا دو گھنٹے طویل بجٹ تقریر میں اگر آخر کے 5 منٹ میں انھوں نے یہ نہیں بتایا ہوتا کہ پٹرول-ڈیزل کی قیمتیں بڑھنے والی ہیں اور مالی خسارہ کا ہدف حاصل نہیں ہو رہا ہے، تو یہ تقریر سیشن کے شروع میں دی گئی صدر جمہوریہ کی تقریر یا اس کے جواب میں دی گئی پی ایم مودی کی تقریر جیسی ہی معلوم ہوتی۔ 2019 کی بجٹ تقریر تاریخ میں روزگار اور ملازمت پیدا کرنے کے لیے اسٹارٹ اَپ پر منحصر ایک ٹی وی چینل شروع کرنے کے اعلان کے لیے یاد کیا جائے گا۔

وزیر مالیات سیتا رمن نے ایک ایسا بجٹ پیش کیا جسے امریکہ میں ’اسٹیٹ آف دی یونین ایڈریس‘ کہا جاتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہمارے یہاں صدر دو بار اور وزیر اعظم تو درجنوں بار ایسی تقریر دے چکے ہیں۔ سیتارمن کی تقریر تمام سرکاری منصوبوں کی کامیابی کی داستان سناتی ہے۔ گزشتہ یو پی اے حکومت کی تنقید کرتی ہیں اور آنے والے وقت میں پانچ کھرب ڈالر کی معیشت بننے کا خواب دکھاتی ہیں۔


اس تقریر میں معاشی بحران جیسا لفظ سنائی نہیں دیا، روزگار کا تذکرہ صرف پانچ بار ہوا، ملازمت کا نام دو بار لیا گیا اور زراعت کا تذکرہ بھی محض 3 بار کیا گیا۔ نصف درجن یعنی 6 بار ’پردھان منتری‘ لفظ کا استعمال ہوا۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس حکومت کی ترجیحات کیا ہیں۔ بلاشبہ اس بجٹ تقریر میں کچھ اچھا بھی تھا، مثلاً ٹیکس نظام کو آسان بنانا، لیکن باقی باتوں پر ضرورت سے زیادہ جھجک کے بعد سوال اٹھ رہے ہیں کہ نرملا سیتارمن اس سے بہتر کچھ کر سکتی تھیں۔

بجٹ تقریر سنتے ہوئے لگتا ہے کہ ملک کی شرح ترقی 8 فیصد سے زیادہ ہے۔ زراعتی سیکٹر 6 فیصد کی شرح سے آگے بڑھ رہی ہے اور کمپنیاں دوسرے ممالک سے نوجوانوں کو متوجہ کرنے کے لیے خصوصی مہم چلا رہی ہیں۔ اس بجٹ میں کہیں نہیں سنائی دیا کہ بے روزگاری شرح 45 سال کی اعلیٰ سطح پر ہے، کاروں کی فروخت 20 فیصد نیچے آ چکی ہے، اور گزشتہ تین سال کے دوران تنہا مہاراشٹر میں 12 ہزار کسان خودکشی کر چکے ہیں۔


ملک میں زراعتی شعبہ اپنے سب سے خراب وقت سے گزر رہا ہے اور 19-2018 میں زرعی ترقی کی شرح گزشتہ سال کے 5 فیصد سے گر کر 2.7 فیصد پر آ چکی ہے۔ اقتصادی سروے میں بتایا گیا کہ خوردنی اشیا کی قیمتوں میں زبردست گراوٹ آئی ہے اور یہ ٹرینڈ گزرے پانچ مہینوں سے جاری ہے۔ وزیر مالیات صرف ایک ہی بات بتا پائیں کہ ’اسپھورتی‘ منصوبہ میں تقریباً 50 ہزار کامگاروں کو اقتصادی امور سے جوڑ دیا جائے گا۔ تقریر میں نہ تو زراعتی شعبہ کے بحران کا ذکر ہے نہ ہی کم از کم قیمت کا یا پھر کسی اور دیگر ترکیب کا جس سے ملک کے کسان راحت کی سانس لے پاتے۔

ملک اس وقت روزگار بحران کے چوراہے پر کھڑا ہے۔ پہلے تو حکومت اس بات کو ماننے کو تیار ہی نہیں تھی کہ بے روزگاری شرح 45 سال کی اعلیٰ سطح پر ہے۔ آخر کار اسے مانا، پھر بھی وزیر مالیات نے اپنی بجٹ تقریر میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ بے روزگاری سے نمٹنے کا واحد طریقہ جو وزیر مالیات نے بتایا وہ ’مدرا لون یوجنا‘ ہے۔ روزگار پیدا کرنے کے جو دوسرے وسائل انھوں نے بتائے اس میں خود سروس گروپ کو 5000 روپے کی اوور ڈرافٹ سہولت دینا اور ان گروپوں کو ایک لاکھ روپے تک کا مدرا لون دینا ہے۔


اگر حکومت رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے لیے کچھ ٹیکس چھوٹ کا انتظام کرتی تو شاید اس شعبہ میں کچھ ملازمتیں پیدا ہو جاتیں یا پھر شہری ہوابازی کے شعبہ پر دھیان دیتی تو وہاں بھی کچھ لوگوں کو روزگار مل سکتا تھا۔

رپورٹ ملی ہے کہ ہندوستان سے ہونے والی برآمد 14-2013 کے 318.6 ارب ڈالر سے بڑھ کر اس سال 331 ارب ڈالر تک ہو گئی ہے، یعنی تقریباً 4 فیصد کا اضافہ۔ لیکن وزیر مالیات نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا۔ اپنی بجٹ تقریر میں ’میک ان انڈیا‘ لفظ کا کم سے کم 6 بار استعمال کر وزیر مالیات نے یہ کہیں نہیں بتایا کہ اس مد میں کتنی سرمایہ کاری ہوگی اور اس سے کتنی ملازمتیں پیدا ہوں گی۔


بجٹ تقریر کے آخر میں وزیر مالیات نے دو اہم اعلان کر دیے، لیکن اس کی کوئی تشریح انھوں نے نہیں کی۔ ایک تو یہ کہ حکومت کس طرح مالی خسارہ کے 3.3 فیصد ہدف پر قائم رہے گی، اور دوسری یہ کہ آخر پٹرول و ڈیزل پر ایک روپے فی لیٹر کا بوجھ لگانے کی کیا ضرورت پڑی۔

ایک بات اور، دراصل نرملا سیتا رمن کے پاس اتنی مالی گنجائش ہے ہی نہیں کہ وہ کوئی نئے منصوبہ کا اعلان کر پائیں۔ ویسے بھی موجودہ اعداد و شمار کی بنیاد پر پہلے سے چل رہے منصوبوں کے لیے وسائل مہیا کرانا ہی مشکل کام ہے۔ نرملا سیتارمن کا یہ پہلا بجٹ تھا۔ وہ کافی کچھ کر سکتی تھیں۔ اپنی موجودگی درج کرا سکتی تھیں، اور معیشت پر چھائے بحران کے بادلوں کو ہٹانے کا کوئی روڈ میپ بھی سامنے رکھ سکتی تھیں۔


بہر حال، شروعات اچھی نہیں رہی اور ایک ثبوت تو سامنے آ ہی گیا جب شیئر بازار نے لال آنکھیں دکھا دیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔