نومبر 2026 میں راجیہ سبھا سے بی ایس پی کی نمائندگی ختم، 36 سال بعد پارلیمنٹ میں مایاوتی کی آواز ہوگی خاموش
راجیہ سبھا رکن رام جی گوتم کی مدت مکمل ہونے کے بعد بی ایس پی پہلی بار پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے باہر ہو جائے گی۔ اتر پردیش میں کمزور عددی طاقت کے سبب فوری واپسی کے آثار نہیں

نئی دہلی: بہوجن سماج پارٹی اس وقت اپنے بدترین سیاسی دور سے گزر رہی ہے۔ لوک سبھا میں پہلے ہی پارٹی کی نمائندگی ختم ہو چکی ہے اور اب راجیہ سبھا میں بھی 2026 کے اختتام پر بی ایس پی کی آواز خاموش ہونے والی ہے۔ پارٹی کے واحد راجیہ سبھا رکن رام جی گوتم کی مدت نومبر 2026 میں پوری ہو جائے گی، جس کے بعد پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں بی ایس پی کا کوئی بھی رکن باقی نہیں رہے گا۔ پارٹی کی 36 سالہ پارلیمانی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہوگا۔
اتر پردیش، جو کبھی بی ایس پی کا سب سے مضبوط سیاسی مرکز تھا، وہاں پارٹی کی حالت نہایت کمزور ہو چکی ہے۔ موجودہ اسمبلی میں بی ایس پی کا صرف ایک ہی رکن ہے جبکہ قانون ساز کونسل میں پارٹی کی کوئی نمائندگی نہیں۔ ایسے میں راجیہ سبھا کے لیے مطلوبہ عددی حمایت کا حصول بی ایس پی کے لیے ناممکن نظر آتا ہے۔
2024 کے لوک سبھا انتخابات میں بی ایس پی ایک بھی نشست جیتنے میں ناکام رہی۔ اس کے ساتھ ہی پارٹی کا ووٹ شیئر بھی نمایاں طور پر کم ہو کر محض دو فیصد سے کچھ اوپر رہ گیا۔ اس انتخابی ناکامی نے نہ صرف پارٹی کے سیاسی مستقبل پر سوال کھڑے کیے بلکہ اس کے قومی پارٹی کے درجے پر بھی خطرہ منڈلانے لگا ہے۔
اتر پردیش سے راجیہ سبھا کی جن دس نشستوں پر نومبر 2026 میں ارکان کی مدت ختم ہو رہی ہے، ان میں بی ایس پی کے پاس نئی نشست جیتنے کے لیے درکار عددی طاقت موجود نہیں۔ اسمبلی کے موجودہ عددی توازن کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی اور سماج وادی پارٹی ہی زیادہ تر نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں ہیں۔
بی ایس پی کی بنیاد 1984 میں کانشی رام نے رکھی تھی اور 1989 میں پارٹی نے پہلی بار پارلیمان میں قدم رکھا۔ اس کے بعد سے اب تک کسی نہ کسی شکل میں بی ایس پی کی نمائندگی پارلیمان میں موجود رہی۔ مایاوتی خود بھی لوک سبھا اور راجیہ سبھا کی رکن رہ چکی ہیں اور چار بار اتر پردیش کی وزیر اعلیٰ بنیں، لیکن موجودہ سیاسی منظرنامے میں پارٹی کی گرفت تقریباً ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
سیاسی ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر 2027 کے اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں بی ایس پی کم از کم چالیس نشستیں حاصل نہیں کر پاتی تو 2029 تک بھی پارلیمان میں اس کی واپسی مشکل ہو جائے گی۔ اس صورتحال میں بی ایس پی کے لیے نہ صرف سیاسی بقا بلکہ اپنی شناخت برقرار رکھنا بھی ایک بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔