بی جے پی لوک سبھا انتخابات جیتنے کے لئے کشمیر کا استعمال کر رہی ہے: فاروق عبد اللہ
جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبدللہ نے کہا، ’’مسئلہ کشمیر کا حل فوج سے حل نہیں ہو سکتا، مذاکرات ہی واحد راستہ ہے جس سے مسئلہ کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ ‘‘

ڈاکٹر فاروق عبداللہ سے قومی آواز کے لئے ہارون ریشی نے گفتگو کی، اس دوران انہوں نے کہا کہ بی جے پی چناؤ جیتنے کے لئے کشمیر کا استعمال کر رہی ہے۔
سوال: پلوامہ حملے کے بعد جموں شہر میں مسلمانوں کے خلاف حملے اور تشدد کے واقعات لگاتار منظر عام پر آئے ہیں، کیا آپ کو لگتا ہے کہ حالات فرقہ وارانہ کشیدگی کی طرف گامزن ہیں؟
جواب : جموں میں فی الحال حالات قابو میں ہیں، لیکن اس کی وجہ کرفیو ہے۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ کرفیو ہٹائے جانے اور اسکول-کالج اور دوسرے ادارے کھلنے کے بعد حالات کیسے رہتے ہیں۔ مسلمانوں میں خوف ہے، جسے ختم کرنے میں وقت لگے گا۔ میں امید کرتا ہوں کہ حالات اور نہ بگڑیں۔ ساتھ ہی حکومت سے امید ہے کہ وہ امن و امان کی فضا کو یقینی بنائے گی۔
کافی لوگوں کا خیال ہے کہ فرقہ وارانہ تشدد سیاسی مفاد کے لئے پھیلایا جا رہا ہے، کیا آپ اس سے متفق ہیں؟
ہاں، مجھے لگتا ہے کہ اس طرح کے حالات بنائے جا رہے ہیں اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ۔ بی جے پی کسی بھی قیمت پر لوک سبھا انتخابات جیتنا چاہتی ہے۔ اس کے لئے وہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کے لئے تمام حربے استعمال کر رہی ہے۔ یہ لوگ کئی معاملات پرہندؤوں اور مسلمانوں کے درمیان دراڑ پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ یہ لوگ فرقہ وارانہ ہم آہنگی نہیں چاہتے۔
جس طرح کے حالات ہیں ان سے کس طرح نمٹا جائے، اس بارے میں آپ کیا سوچتے ہیں؟
مجھے امید ہے کہ ان حالات سے ہندوستان کے دانشمند شہری اور قیادت نمٹ لے گی، ورنہ ملک کو زبردست خطرہ لاحق ہو جائے گا، مجھے لگتا ہے کہ ملک کو باہر سے نہیں بلکہ اندر سے زیادہ خطرہ ہے۔
پاکستان نے پلوامہ حملہ میں اپنا ہاتھ ہونے سے انکار کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہندوستان بغیر کسی ثبوت کے الزام لگا رہا ہے، اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟
جہاں تک پاکستانی حکومت کا سوال ہے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ کیا چاہتی ہے! لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جیش محمد کے ملی ٹینٹ یہاں فعال ہیں اور پلوامہ جیسے حملے کر رہے ہیں۔ دراصل یہ لوگ (جیش محمد) آنے والے وقت میں بی جے پی کو مضبوط کرنے کا کام کر رہے ہیں۔
مسئلہ کشمیر کا سیاسی حل کیا ہو سکتا ہے؟
دیکھیے، کسی بھی مسئلہ کا سیاسی حل اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ہم بات نہیں کریں گے۔ ہم تمام معاملات پر آپس میں بات کریں، تبھی حل نکل سکتا ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ مناسب حل ہے باقی غلط ۔ مسئلہ کا حل تبھی نکلے گا جب دل سے بات ہوگی۔ لیکن اگر مرکز بات ہی نہیں کرنا چاہےاور صرف چناؤ جیتنا ہی اس کا مقصد ہو تو کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا۔
فوج نے ملی ٹینٹوں کے خلاف 2017 میں ’آپریشن آل آؤٹ‘ شروع کیا تھا، کیا اس سے جموں و کشمیر میں ملی ٹنسی ختم ہو سکتی ہے؟
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ملی ٹنسی ختم ہو سکتی ہے وہ مغالطہ میں ہیں۔ میں نے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کی طرف سے بلائی گئی پارلیمانی کمیٹی کی میٹنگ میں بھی یہ بات کہی تھی۔ میں نے کہا تھا کہ ایسا سوچنا بے وقوفی ہے کہ ملی ٹنسی ختم ہو گئی اور اب کبھی سر نہیں اٹھائے گی۔ کشمیر میں ملی ٹنسی تبھی ختم ہو سکتی ہے جب مسئلہ کا سیاسی حل نکالا جائے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ سیکورٹی فورسز کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ اس کا اثر کیا ہوگا؟
وہ (مودی) ایسی باتیں اس لئے کرتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ وہ خود کچھ نہیں کر سکتے۔ اس لئے وہ سیکورٹی فورسز کو کھلی چھوٹ دینے کی باتیں کر رہے ہیں۔
کیا اس سے وادی الگ تھلگ ہوگی؟
آپ کیا سمجھتے ہیں کہ مرکز کو اس کی فکر ہے، انہیں اس کی ذرا بھی پروا نہیں ہے۔ وہ صرف لوگوں کو بے وقوف بنانا جانتے ہیں تاکہ اقتدار میں بنے رہیں۔
آپ ہمیشہ مذاکرات کی وکالت کرتے ہیں، کیا آپ کو لگتا ہے کہ حریت سے بات کرنے سے مسئلہ کشمیر کا حل نکلے گا؟
میں نے کبھی نہیں کہا کہ صرف حریت کے رہنماؤں سے بات کی جائے۔ سبھی سے بات ہونا ضروری ہے۔ میرا سیدھا سوال ہے کہ جموں و کشمیر کے تمام حلقوں کو کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے، ان کے مشوروں کو کیوں نہیں دیکھتے؟ وہ کشمیر کو خود مختاری کیوں نہیں دیتے؟ ہماری خود مختاری آئین سے باہر نہیں ہے۔
دفعہ 35 اے کو سپریم کورٹ میں چیلنج دیا گیا ہے۔ اگر سپریم کورٹ جموں و کشمیر کے لوگوں کوملے خصوصی حقوق ختم کر دیتا ہے تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
میرا خیال ہے کہ کشمیر کے لوگ کن سانحوں سے دو چار ہیں اس کی سمجھ سپریم کورٹ کو ہے۔ مجھے امید ہے کہ سمجھداری بھرا فیصلہ ہوگا، میں صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں۔ سپریم کورٹ کی اپنی حدود ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ عزت مآب عدالت عظمیٰ اس بات کو سمجھتی ہے کہ دفعہ 35 اے کو ہٹانے سے کیا اثر پڑے گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔