گجرات: بی جے پی پر ٹکٹ فروخت کرنے کا الزام، بغاوت کی لہر تیز

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

نچیکیتا دیسائی

گجرات انتخابات کے پہلے مرحلے کی نامزدگی کے آخری دن برسراقتدار بی جے پی میں زبردست بغاوت کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ بغاوت کرنے والوں میں ایک سابق وزیر سمیت بی جے پی کے کئی سینئر لیڈران بھی شامل ہیں۔ سابق وزیر رنجیت سنگھ جھالا کے ذریعہ بی جے پی چھوڑنے سے پارٹی کو زبردست شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جھالا نے پارٹی اعلیٰ کمان پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے ایک باہری شخص دھانجی پٹیل کو سریندر نگر ضلع کی وادھوان سیٹ سے امیدوار بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پٹیل ایک صنعت کار ہیں اور انھوں نے 9 کروڑ روپے میں پارٹی کا ٹکٹ خریدا ہے۔ جھالا کا کہنا ہے کہ ”میں نے اپنے لیے پارٹی سے ٹکٹ نہیں مانگا تھا، لیکن پیسے لے کر کسی باہری شخص کو ٹکٹ دیے جانے کو میں قطعی برداشت نہیں کر سکتا۔“ قابل ذکر ہے کہ اس سیٹ میں پہلے وَرشا دوشی ممبر اسمبلی تھے لیکن ان کا ٹکٹ کاٹ کر دھاجی پٹیل کو امیدوار بنایا گیا ہے۔

کچھ دن قبل تک کہا جا رہا تھا کہ پارٹی ترجمان آئی کے جڈیجہ کو وادھوان سے ٹکٹ ملے گا، لیکن عین وقت پر انھیں بھی فراموش کر دیا گیا۔ جڈیجہ کو سابق وزیر اعلیٰ آنندی بین پٹیل کا قریبی قرار دیا جاتا ہے لیکن بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ سے ان کا رشتہ کافی تلخ ہے۔ جڈیجہ کا ٹکٹ کٹنے کے بعد ان کے حامیوں نے پارٹی صدر دفتر پر ہنگامہ بھی کیا تھا اور امت شاہ کے خلاف نعرے بازی بھی کی تھی۔

اس کے علاوہ ایک اور موجودہ ممبر اسمبلی جیٹھا بھائی سولنکی نے بھی پارٹی سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ سولنکی سوراشٹر کی کوہنار سیٹ سے ممبر اسمبلی ہیں اور ایک جانا پہچانا دلت چہرہ ہیں۔ انھوںنے 2012 میں اس سیٹ پر 63000 ووٹوں سے فتحیابی حاصل کی تھی۔ ان کا ٹکٹ بھی عین موقع پر کاٹ دیا گیا ہے۔ سولنکی پارٹی کے پارلیمانی سکریٹری بھی تھے، لیکن انھوں نے اپنے سبھی عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ دراصل 9 دسمبر کو ہونے والے پہلے مرحلے کے انتخاب کے لیے امیدواروں کے ناموں کےا علان کے ساتھ ہی بی جے پی میں بغاوت کھل کر سامنے آ گئی ہے اور زبردست پیمانے پر مخالفت اور استعفیٰ کا دور شروع ہو گیا ہے۔ وڈودرا میں بھی قبائلی اکثریتی علاقوں میں بی جے پی کو بغاوت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ چھوٹا اُدے پور اور بھروچ ضلع کی نوساری، جنوبی گجرات کے مہوا، جسدان اور سوراشٹر کے امریلی علاقے میں بھی پارٹی لیڈروں کے استعفے اور احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔

واضح رہے کہ بی جے پی نے تین قسطوں میں امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا ہے۔ سب سے پہلے 70، پھر 36 اور بعد میں 28 امیدواروں کی فہرست سامنے آئی۔ ان فہرستوں میں بی جے پی سے ناراض پاٹیدار طبقہ کو کوش کرنے کی کوشش بھی نظر آ رہی ہے۔ اسی لیے پارٹی کی تیسری فہرست میں 28 میں سے 15 پٹیلوں کو امیدوار بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔

جن پٹیلوں کو امیدوار بنایا گیا ہے ان میں سابق صنعت و پیٹرو کیمیکل وزیر سوربھ پٹیل بھی شامل ہیں۔ سوربھ پٹیل سابق وزیر اعلیٰ آنندی بین پٹیل کے قریبی ہیں۔ لیکن اس بار ان کی سیٹ وڈودرا کے اکوٹا سے بدل کر سوراشٹر کا بوٹاڈ کر دیا گیا ہے۔ جن لوگوں کو ٹکٹ سے محروم رکھا گیا ہے ان میں آنندی بین پٹیل کی بہن واسو بین ترویدی کا نام اہمیت کا حامل ہے جو جام نگر سے دعویدار تھیں۔ ان کی جگہ سینئر پارٹی لیڈر آر سی فالدو کو امیدوار بنایا گیا ہے کیونکہ فالدو جام نگر دیہی سے اپنا ٹکٹ کٹنے سے بے حد ناراض تھے۔ فالدو کی سیٹ پر بی جے پی نے راگھو جی پٹیل کو ٹکٹ دیا ہے جو کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں آئے ہیں۔

اتنا ہی نہیں، ریاستی وزیر اور ہاردک پٹیل کے سخت مخالف نانو بھائی ونانی کا بھی سورت سے ٹکٹ کٹ گیا ہے۔ دراصل بی جے پی نے سورت کے سبھی پانچ موجودہ ممبران اسمبلی کا ٹکٹ کاٹ دیا ہے کیونکہ سورت ہی پاٹیدار تحریک کا اڈہ بنا تھا۔ اس طرح بی جے پی میں اب تک تقریباً 40 سیٹوں پر مخالفت اور استعفیٰ کے ساتھ ہی بغاوت دیکھنے کو مل رہی ہے جس سے یقینا بی جے پی کی ہوائیاں اڑی ہوئی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔