مسلمانوں کو انتخابی سیاست سے بے دخل کرنے کی کوشش!

بی جے پی کی حکمت عملی صاف ہے، مسلم ووٹ کو خارج کرو اور ہندوؤں کو متحد کرو۔ اور یہی اس کی سیاست میں نظر بھی آ رہا ہے۔ 

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی )جمہوری اقدار کے خلاف کام کر رہی ہے۔ گجرات اور دیگر ریاستوں میں جہاں وہ بر سر اقتدار ہے وہ ایسی ہی پالیسی اختیار کر رہی ہے جس سے منظم طریقے سے مسلمانوں کو سیاست سے بے دخل کیا جاسکے۔

سورت کے مسلم رہنما سلیم وائی شیخ نے فرسٹ پوسٹ کو بتایا کہ ’’ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کے لئے بی جے پی مسلمانوں کو سیاست سے بے دخل کر رہی ہے۔ گجرات میں بی جے پی نے سال در سال مسلمانوں کو اسمبلی انتخابات کے ٹکٹ نہیں دیئے۔ ان علاقوں میں بھی بی جے پی نے مسلمانوں کو امیدوار نہیں بنایا جہاں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ‘‘ سلیم شیخ کے مطابق ’’آج مسلمانوں کو مین اسٹریم سے دور کیا جا رہا ہے ۔ بی جے پی آئین کےمطابق سب کو ساتھ لے کر چلنے کے جذبہ پر عمل نہیں کر رہی۔‘‘

شاید غنی بھائی قریشی وہ آخری مسلمان تھے جنہوں نے بی جے پی کے ٹکٹ پر گجرات اسمبلی کا چناؤ لڑا تھا ۔ یہ بات آج سے دو دہائی قبل کی ہے جب گجرات بی جے پی کی کمان کیشو بھائی پٹیل کے ہاتھ میں تھی۔

گجرات کی راہ پر چلتے ہوئے بی جے پی نے تمام ریاستوں میں مسلمانوں کو ٹکٹ دینے سے پرہیز کرنے کا اصول اپنا لیا ہے۔ مثلاً نہ تو بی جے پی نے 2017 کے یو پی انتخابات میں کسی کو امیدوار بنایا اور نہ ہی حال ہی میں ہوئے کرناٹک انتخابات میں۔

سورت کے رہائشی آکار پٹیل نے گزشتہ سال اپنے مضمون میں لکھا تھا ’’1989 سے اب تک گجرات میں بی جے پی نے لوک سبھا اور اسمبلی کی 1300 سیٹوں پر چناؤ لڑا ، لیکن ایک بھی مسلمان کو امیدوار نہیں بنایا۔‘‘ آکار پٹیل مزید لکھتے ہیں ’’جن ریاستوں میں آج بی جے پی کی حکومت ہے ان میں بی جے پی کے مسلم ارکان اسمبلی کی تعداد کچھ اس طرح ہے۔ گجرات ۔0، یو پی ۔0 ، مہاراشٹر ۔0 ، علاوہ ازیں مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور جھارکھنڈ میں بھی بی جے پی کا ایک بھی رکن اسمبلی مسلمان نہیں ہے۔ ‘‘ آج بی جے پی ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہے لیکن کسی بھی ریاست میں اس کے پاس ایک بھی مسلم رکن اسمبلی نہیں ہے۔ نہ ہی لوک سبھا کے لئے منتخب ایک بھی رکن پارلیمنٹ۔ جبکہ وزیر اعظم نریندر مودی ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کی بات کرتے ہیں۔

سورت میونسپل کارپوریشن کے کونسلر اسلم سائیکل والا کہتے ہیں کہ ’’بی جے پی آج مسلمانوں کی نمائندگی ختم کرنے پر آمادہ ہے۔ یہ سلسلہ وار مشن ہے۔ یہاں تک کہ بی جے کی جماعتی تنظیم میں بھی مسلمانوں کو اہم عہدے نہیں دیئے جاتے۔ ‘‘وہ کہتے ہیں کہ فیصلے لینے میں بی جے پی کے اقلیتی شعبوں کے رہنماؤں کی بھی کوئی پوچھ نہیں ہوتی۔

دوسری جماعتیں بھی بی جے پی کی راہ پرگامزن

بی جے پی کے ذریعہ مسلمانوں کو یک و تنہا کر دینے سے پوری ہندوستانی سیاست ہی تبدیل ہو کر رہ گئی ہے۔ سورت کے ایک کونسلر اقبال بیلِم کہتے ہیں کہ 1990 سے کانگریس نے سورت میونسپل کارپوریشن کے منتخب مسلم نمائندگان کو بھی اہم ذمہ داریاں دینے سے پرہیز کیا ہے۔

اقبال بیلم کہتے ہیں کہ ’’کانگریس سوچتی ہے کہ اگر وہ مسلمانوں کو آگے بڑھائے گی تو اس کے ہندو ووٹر ناراض ہو جائیں گے۔‘‘ بیلم کے مطابق کانگریس آج ’نرم ہندوتوا‘ کی سیاست کر رہی ہے۔

مسلم ووٹنگ کم کرنے کی کوشش؟

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت گجرات یونٹ کے نائب صدر زبیر گوپالانی نے ایک انٹر ویو کے دوران کہا کہ گجرات میں 23 اسمبلی حلقہ انتخاب میں مسلم ووٹروں کی کافی زیادہ ہے۔ لیکن ان سیٹوں پر بی جے پی آزاد امیدواروں کو چناؤ لڑاتی ہے، جس کے نتیجہ میں مسلم ووٹ تقسیم ہو جاتے ہیں۔

زبیر گوپالانی ایک بے حد چونکانے والی بات کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلم علاقوں میں ووٹنگ کے دن بی جے پی مسلمانوں کو مذہبی مقامات پر زیارت کے لئے بھیج دیتی ہے۔ زبیر کے مطابق یہ چھوٹے پیمانے پر نہیں بلکہ بڑے پیمانے پر انجام دیا جاتا ہے اس کے لئے مسلم دلالوں کی مدد لی جاتی ہے۔مسلمانوں کو سیکڑوں بسوں کے ذریعہ اجمیر شریف بھیج دیا جاتا ہے۔

احمد آباد سے کانگریس کے رکن اسمبلی عمرا ن کھیڑا والا کہتے ہیں کہ بی جے پی اپنے ٹکٹ پر کسی مسلم امیدوار کو میدان میں نہیں اتارتی بلکہ وہ آزاد مسلم امیدواروں کو حمایت ضرور کرتی ہے تاکہ ووٹ تقسیم ہو جائے۔

عمران کہتے ہیں کہ بی جے پی کے امیدوار مسلمان ووٹروں کے پاس ووٹ دینے کی اپیل کرنے بھی نہیں جاتے اور وہ یہ بھی نہیں کہتے کہ مسلمانوں کی روزمرہ کی دقتیں دور کریں گے۔

احمد آباد کے صحافی اور سیاسی تجزیہ کار ریتوک تریویدی نے کہا کہ بی جے پی کے لئے گجرات ہندوتوا کی تجربہ گاہ ہے۔ تریویدی نے کہا کہ گجرات اسمبلی سیٹوں کو از سر نو تشکیل دیا گیا اور یہ 2012 کے اسمبلی انتخابات سے عین قبل کیا گیا۔ یہ تقسیم کچھ اس طرح کی گئی کہ مسلم ووٹ تقسیم ہو گئے۔

مسلمانوں کو ترقی پسند رہنمادرکار

وڈودرا کے رہائشی ترقی پسند مسلم مصنف اور مفکر ڈاکٹر جے ایس بندوق والا کہتے ہیں ’’ہمیں ہر شہری کا احترام کرنا چاہئے مگر افسوس کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی بنیاد ہی مسلمانوں سے نفرت پر رکھی گئی ہے۔ آج مسلمانوں کو اعلی درجے کی قیادت درکار ہےجو ان کے حملوں کا مقابلہ کر سکےہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے طبقے نے ایسا دانشمند رہنما ابھی تک پیدا نہیں کیا ہے۔‘‘

بندوق والا مزید کہتے ہیں’’گجرات فساد کے بعد مسلمان سیاسی طور پر لاپتہ ہو گیا۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے سسٹم میں اتنا زہر گھول دیا تھا کہ کسی مسلمان کے لئے چناؤ جیتنا ناممکن ہو گیا ۔ اور جہاں تک ہندوؤں کی بات ہے تو ان کے لئے مسلمان برادری ایک باہر کا طبقہ بنا ہوا ہے۔ آج گجرات میں ایک بھی مسلمان لوک سبھا کے لئے منتخب نہیں ہوتا۔

بی جے پی کی پالیسی ایک دم صاف ہے، مسلم ووٹوں کو خارج کرو ، ہندؤں کو متحد کرو۔ جنوری میں راجستھان کے وزیر جسونت یادو نے کہا، ’’ہندو مجھے ووٹ کریں، مسلمان کانگریس کو ووٹ کریں۔‘‘

بی جے پی رہنماؤں کے ایسے بیانات محض اتفاق نہیں ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ رہنما ان تجربہ گاہوں سے نکل کر آتے ہیں جہاں سے وزیر اعظم نریندر مودی کا نظریہ چلایا جاتا ہے۔

سینئر صحافی تولین سنگھ نے لکھا تھا ’’وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے من کی بات پروگرام میں کبھی بھی مسلمانوں کی سرعام پٹائی یا مضحکہ خیز لو جہاد نظریہ کی مذمت نہیں کی ۔ مودی نے تشدد کے خلاف محض دو بار بیان دیا اور دونوں معاملات میں متاثرین دلت تھے۔ مودی نے ایک بار بھی مسلمانوں کے پیٹ پیٹ کر قتل کیے جانے یا انہیں جلا کر مار ڈالنے کے واقعات کے ویڈیوانٹر نیٹ پر ڈالنے کی مذمت نہیں کی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایسے واقعات کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ‘‘

احمد آباد کے سنٹر فار سوشل جسٹس کے گگن سیٹھی کہتے ہیں کہ بی جے پی ایسا ظاہر کرتی ہے کہ اسے مسلمانوں کے سوائے سب کی ضرورت ہے۔ سیٹھی مزید کہتے ہیں ’’میرا خیال ہے کہ ان کا مسلمانوں سے صاف کہنا ہے کہ تم دوئم درجے کے شہری ہو، تم ہمارے رحم و کرم پر منحصر ہو۔‘‘

وڈودرا کے سنٹر فار کنٹمپریری تھیوری کے پروفیسر پرفل کار کہتے ہیں کہ:

’’چناؤ بھی کسی طبقہ کو جمہوری عمل سے الگ کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ یہ خیال جواہر لال نہرو کے دور میں نہیں تھا کیوں کہ وہ جمہوری اقدار کو سمجھتے تھے۔ ‘‘ پروفیسر پرفل کہتے ہیں کہ آج دلت اور مسلمان دونوں ہی طبقے جمہوری عمل سے الگ تھلگ ہیں۔

صحافی شکیل پٹھان کہتے ہیں ’’ چناؤ کے وقت سماج ہندو اور مسلمان میں تقسیم ہو جاتا ہےاور جیسے ہی چناؤ ختم ہوتے ہیں ہندو اور مسلمان کی یہ دراڑ غائب ہو جاتی ہے۔ ‘‘

صحافی ریتوک تریویدی کہتے ہیں’’سیاسی طور پر ہر طرح کی تفریق ہو رہی ہے لیکن سماجی طور پر ایسی تفریق نظر نہیں آتی۔ شاید بی جے پی کو ہندوستان کی قدیمی روایت سے کچھ سیکھنا چاہئے، جس کے مطابق تمام دنیا ہی ایک خاندان ہے۔ ہندوستانی نظریہ انسانیت کے لئے بہت بڑی دین ہے۔

(یہ رپورٹ طفیل احمد کی ہے اور فرسٹ پوسٹ میں شائع ہو چکی ہے)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 24 May 2018, 4:45 AM
/* */